نوکر شاہی کی اُڈاریاں

نوکر شاہی کی اُڈاریاں
کیپشن: City42- Qaiser Khokhar
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

( قیصر کھوکھر) جیسے جیسے نگران دور اور نیب کا شکنجہ قریب آرہا ہے کئی اعلیٰ افسروں نے کسی نہ کسی بہانے سے چھٹی، تبادلہ اور بیرون ملک جانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ کئی عمرہ پر جا رہے ہیں اور اس طرح افسر شاہی نے اپنے طور پر محفوظ مستقبل کی جانب اُڈاریاں لینا شروع کر دی ہیں۔ ڈی جی ایل ڈی اے زاہد اختر زمان چھٹی لے کر او ایس ڈی بن گئے ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف نے ایک سال کی چھٹی لے لی ہے۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور سلطان چودھری نے بھی چھٹی کی درخواست دی ہے۔

ڈی پی او جہلم اور ڈی پی او ساہیوال نے بھی چھٹی کی درخواست دائر کی ہے ۔ ذرائع کے مطابق کئی افسران نیب اور نگران حکومت کے احتساب کے خوف سے ادھر ادھر جا رہے ہیں اور کئی ایک نے ابھی سے پلاننگ شروع کر دی ہے کہ نگران دور میں ان کی اُڑان کیا ہوگی۔ آج کل افسر شاہی اپنے طور پر چوکنا ہو گئی ہے اور زبانی احکامات پر عمل کم ہی کر رہی ہے، کیونکہ پنجاب حکومت کی ایک اعلیٰ شخصیت نے نیب میں گزشتہ دنوں بیان دیا ہے کہ انہوں نے افسران کو کبھی بھی غلط کام کے لئے نہیں کہا ،ہم سب تحریری طور پر کام کہتے اور کرواتے ہیں۔ جس کے بعد سے افسر شاہی مزید چوکنا ہو گئی ہے۔

 سال 1999ءمیں اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعلیٰ نے اس وقت کے سیکرٹری زکوٰة اظہر حسین شمیم کو زکوٰة فنڈ کی رقم بینکرز ایکویٹی لمیٹڈ میں رکھنے کی ہدایت کی اور بعد میں جب وہ بینک ڈوب گیا تو پرنسپل سیکرٹری اس بات سے مکر گئے کہ انہوں نے ایسا کوئی حکم دیاتھا ۔ پنجاب میں اکثر یہی کچھ ہوتا ہے کہ جب نیب ایکشن لے یا کوئی انکوائری شروع ہوتی ہے توافسرحکم دینے سے مکر جاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کوئی حکم سرے سے دیاہی نہیں تھا۔ پنجاب میں ایک جانب پی ایم ایس افسران پنجاب سول سیکرٹریٹ میں احتجاج کر رہے ہیں ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ فیلڈ میں انہیں بھی کوٹے کے مطابق پوسٹنگ دی جائے ۔ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے مطابق فیلڈ میں ڈی سی اور کمشنر لگانے کا اختیار وزیر اعلیٰ کا ہے نہ کہ چیف سیکرٹری کا۔ چیف سیکرٹری اس معاملے میں بے قصور ہیں۔

 آج کی افسر شاہی میں پروفیشنل ازم ختم ہو گیا ہے اور ہر کوئی حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتا ہے ۔ اب جب حکومت جا رہی ہے اور اگلی حکومت نجانے کس کی ہو؟ اسی بات سے افسر شاہی پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ جن افسران پر کوئی سیاسی لیبل ہوگا وہ صوبے سے واپس وفاق میں چلے جائیں گے بقیہ ادھر ادھر ٹرانسفر ہو جائیں گے۔ سب سے زیادہ وہ افسران پریشان ہیں جو موجودہ حکومت کی آنکھ کا تارا رہے ہیں اور انہوں نے بہت اچھی پوسٹنگ سے انجوائے کیا ہے۔ اب وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں کہ اگلی حکومت اگر مخالف سیاسی جماعت کی بن گئی تو ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ جو اپنے کیریئر میں غیر جانبدار رہے ہیں اور پروفیشنل ہونے کا مظاہرہ کیا ہے وہ اس نگران دور میں بچ جائیں گے ۔

 ڈی ایم جی ن کے افسروں پر برا وقت آنے والا ہے۔ یہ حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ افسر شاہی کو غیر جانبدار رکھیں اور ان سے صرف ان کی ڈیوٹی کا ہی کام لیں۔ جو ان کا فرض بنتا ہے۔ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی میں آج کل ہو کا عالم ہے۔ افسروں نے اپنی بہترین تقرریاں لینے کے لئے سفارشیں کرانا بند کر دی ہیں اور جو جہاں ہے وہ وہیں پر رہنا چاہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج کل پنجاب سیکرٹریٹ سروس کے افسر جنہیں کلکٹر شپ اور ریونیو کی ٹریننگ نہیں ہوتی انہیں بھی فیلڈ میں ڈپٹی کمشنر لگایا جا رہا ہے۔ کیونکہ ڈی ایم جی افسرفیلڈ میں فی الحال جانا نہیں چاہتے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ایک ماہ بعد نگرانوں نے آتے ہی تمام انتظامیہ کو تبدیل کر دینا ہے۔ یہ ساری نظام کی کمزوری ہے حکومت نگرانوں کی ہو یا ایک منتخب سیاسی جماعت کی ،افسر شاہی کو ہمیشہ ریاست اور اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہونا چاہئے اور نگرانوں کے آنے پر انہیں تبدیل کرنے کی نوبت ہی نہیں آنی چاہئے۔ انہیں صرف ان کی تقرری کا دورانیہ یا کوئی غلط کام کرنے پر ہی تبدیل کیا جانا چاہئے۔

 لیکن پاکستان میں ہر آنے والی حکومت افسر شاہی کے ذریعے حکومت کرتی ہے اور ہر غلط یا جائز کام کے لئے افسر شاہی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب حکومت بدلتی ہے یا نگران حکومت آتی ہے اور ساری انتظامیہ کو اتھل پتھل کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران کئی افسر غیر ممالک میں پوسٹنگ حاصل کر لیتے ہیں جیسا کہ آج کل کئی ڈی ایم جی ن کے قریب تر افسران نے فارن پوسٹنگ جن میں اکنامک ایڈوائزر کی اسامی بھی شامل ہے کے لئے اپلائی کر دیا ہے تاکہ اب وہ کچھ عرصہ ملک سے باہر چلے جائیں تاکہ مسلم لیگ ن کی مخالف حکومت اور نیب سے بچ سکیں۔ لیکن یہ بات اٹل حقیقت ہے کہ غیر جانبدار رہنے والے افسر خواہ وہ کھڈے لائن ہی کیوں نہ رہے ہوں یا پروفیشنل افسران جنہوں نے اپنی ڈیوٹی سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا ہوگا وہ بچ جائیں گے اور سیاسی لیبل اور سیاسی طور پر تقرری لینے والے افسران زیر عتاب آ جائیں گے۔ حکومت کو لانگ ٹرم پالیسی کے تحت افسروں میں پروفیشنل ازم لانے کے لئے اقدامات کرنا ہونگے تاکہ حکومت بدلنے پر کسی کو اپنے تبادلے یا احتساب کی فکر نہ ہو اور ہر کوئی دل جمعی سے کام کر سکے۔ بیوروکریسی کسی حاکم کی نہیں بلکہ ریاست کی ملازم ہوتی ہے۔ بیوروکریسی میں ایسا ٹرینڈ خطرناک ہے کہ حکمران اپنے من پسند افسران تعینات کرکے ان سے کام لیتے ہیں۔اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی یا ایسی قانون سازی کرنا ہوگی کہ کوئی بھی حکمران بیوروکریسی کو ذاتی پسند نا پسند کے مطابق نہ تعینات کرسکے نہ اس سے کام لے سکے۔ قانون سازی سے بیوروکریسی پروفیشنل ہوجائے گی اوریہی اس کی بقا کیلئے بہترہے۔ اس سے ادارے بھی مضبوط ہوں گے اور ملک بھی ترقی کرے گا ۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر