ملک محمد اشرف : لاہور ہائیکورٹ میں ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب کیخلاف توہین عدالت کا معاملہ۔عدالت نے درخواستگزار کو کچھ دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی اجازت دے دی۔عدالتی حکم کے باوجود ڈی ایس پی کو ایس پی کے عہدے پر ترقی نہ دینے پر ہائیکورٹ نے ڈیپارٹمنٹل پروموشن بورڈ میں شامل پولیس افسران کو توہین عدالت کارروائی کے لئےشوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 29 اکتوبر کو جواب سمیت طلب کرلیا۔
عدالت نے شہری معظم رفیق کی متفرق درخواست پر سماعت کی ۔درخواستگزارکی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ اسنے اپنی اراضی کی نشاندہی کیلئےپٹواری راو احسان الحق کو درخواستیں دیں ۔ پٹواری نے نشاندہی کے لیے رشوت مانگی ۔رشوت کیخلاف محکمہ اینٹی کرپشن کو درخواست دی ۔اینٹی کرپشن نے بھی پٹواری کیخلاف اسکی درخواست پر شنوائی نہیں کی ۔دادرسی نہ ہونے پر ہائیکورٹ سے رجوع کیا ۔ عدالت نے درخواست دادرسی کیلئے ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب کو بھجوا دی۔
عدالت نے ڈی جی اینٹی کرپشن کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔عدالت کے 29جنوری 2020 کے حکم پر عملدرآمدنہیں کیا جا رہا ۔درخواستگزارنےاستدعا کی کہ حکم عدولی پر ڈی جی اینٹی کرپشن کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس عاطر محمود نے ڈی ایس پی سید مختار حسین شاہ کی درخواست پر حکم جاری کیا ۔عدالت نے ڈیپارٹمنٹل پروموشن بورڈ میں شامل سابق آئی جی امجد جاوید سلیمی،سابق ایڈیشنل آئی جی اسٹیبلشمنٹ اعجاز حسین ،ڈی آئی جی سپیشل برانچ عبدالکریم ،سابق ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر افضال احمد کوثر،سابق ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ محمد زبیر دریشک ،ڈپٹی سیکرٹری ریگولیشن ایس اینڈ جی اے ڈی محمد سلیم اور مس سدرہ یونس کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے آیندہ سماعت پر جواب سمیت ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
درخواستگزار کی جانب سے سہیل ڈار ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور موقف اختیار کیاتھا کہ درخواستگزار ڈی ایس پی کو سینئر ہونے کے باوجود ایس پی کے عہدوں پر ترقی نہیں دی جا رہی ۔ایس پی کے عہدے پر ترقی کیلئےافسران کو درخواستیں دی دادرسی نہ ہونے پر ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔عدالتی حکم کے باوجود ڈیپارٹمنٹل پروموشن بورڈ میں اسکی اترقی کا معاملہ موخر کردیا ۔عدالت کے 20 دسمبر 2018 کے حکم پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ درخواستگزارنےاستدعاکی کہ حکم عدولی پر ذمہ دار پولیس افسران کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے