ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

قائد اعظم محمد علی جناح پر قاتلانہ حملہ کس نے کیا تھا؟ کیوں کیا تھا؟

 قائد اعظم محمد علی جناح پر قاتلانہ حملہ کس نے کیا تھا؟ کیوں کیا تھا؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک:    26 جولائی 1943 کی دوپہر محمد علی جناح ممبئی میں ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ پر اپنے گھر میں قائم آفس میں کام کر رہے تھے۔ ایک اجنبی شخص ان کے دفتر میں داخل ہوا اور ان کے سیکریٹری سید احمد سید یعقوب سے کہا کہ ’میں جناح سے ملنا چاہتا ہوں۔‘
قائد اعظم محمد علی جناح کے سیکریٹری  سید احمد سید یعقوب نے اس شخص کو جواب دیا ’جناح کسی سے تب  تک نہیں ملتے جب تک  ملنے والے نے  پیشگی وقت نہ لے رکھا ہو۔‘ سید احمد سید یعقوب نے کہا اگر تم مجھے اپنے ملنے کا مقصد بتا دو تو میں تمہیں ملنے کے وقت اور تاریخ سے آگاہ کر دوں گا۔

اس اجنبی شخص نے  ایک کاغذ پر کچھ لکھنا شروع کر دیا،اسی دوران جناح کسی فائل کی تلاش میں سیکریٹری کے کمرے میں آئے تو اس شخص کو دیکھ کر انھوں نے سیکریٹری سے پوچھا ’یہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟‘ سیکریٹری نے بتایا ’یہ آپ سے ملنے کے خواہش مند ہیں۔‘ اس پر جناح نے اس شخص سے مخاطب ہو کر کہا ’آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں ایک کاغذ پر لکھ دیجیے، میں اسے دیکھ کر ایک دو دن میں ملاقات کا وقت دے دوں گا۔‘

اس شخص  نے اسی وقت ملاقات پر زور دیا جس پر  جناح نے کہا کہ ’میں بہت مصروف ہوں، اس لیے فوری طور پر ملاقات نہیں کرسکتا۔‘وہ شخص یہ جواب سن کر بپھر گیا۔ اس نے ایک زبردست مکا جناح کے جبڑے پر مارا اور اپنی جیب سے ایک کھلا ہوا چاقو نکال کر ان پر حملہ کر دیا۔ اس کا ارادہ قائد اعظم محمد علی جناح کو قتل کرنے کا تھا۔ اس حملے کے میں جناح زخمی بھی ہو گئے۔ اتنے میں جناح کے سیکریٹری   اور ڈرائیور  نے اس شخص کو  دبوچ لیا اور اس کا ہتھیار چھین لیا۔

تھوڑی دیر بعد گام دیوی پولیس سٹیشن کے انگریز انسپکٹر ولیم جارج کیلبرن اپنے عملے کے ساتھ جناح کے بنگلے پر پہنچ گئے۔انھوں نے جناح ہاؤس کے ملازمین کی تحویل میں موجود ملزم کو اپنی حراست میں لیا اور محمد علی جناح کا بیان خود ریکارڈ کیا۔  ایک غیر ملکی نشریاتی رپورٹ کے مطابق پولیس  تحقیقات سے معلوم ہوا کہ حملہ آور کا اصل نام محمد صادق تھا۔ وہ مجلس احرار اور اتحاد ملت جماعتوں کا رکن رہا تھا۔  مولانا ظفر علی خان نے ان کی کارکردگی سے خوش ہوکر انھیں کامریڈ کا خطاب دیا تھا جسے ترجمہ کر کے انھوں نے اپنا نام رفیق رکھ لیا تھا۔ صابر ان کا تخلص تھا اور وہ مزنگ (لاہور) کا رہنے والا تھا۔ یوں ان کا نام رفیق صابر مزنگوی مشہور ہوگیا۔     ایک اور روایت یہ بتاتی ہے کہ رفیق صابر مزنگوی کا تعلق مسلم لیگ سے نہیں بلکہ خاکسار تحریک سے تھا۔ رئیس احمد جعفری نے اپنی کتاب ’قائداعظم اور ان کا عہد‘ میں لکھا ہے کہ ’یہ وہ زمانہ تھا جب خاکسار، مسلم لیگ اور قائداعظم کے خلاف ہمہ تن جہاد بن گئے تھے اور انھوں نے یونینسٹوں سے سازباز، کانگریس سے یارانہ اور احرار سے میل جول شروع کردیا تھا اور مسلم لیگ کے خلاف ایک محاذ قائم کر دیا تھا۔‘

’انھوں نے ملک کے مختلف حصوں سے جناح کو بے شمار خطوط لکھے جن میں ان پر الزام لگایا گیا کہ انگریزوں کے خلاف کانگریس کا ساتھ نہ دے کر انھوں نے قوم سے غداری کی ہے۔ ان کے پاس کبھی کبھی ایک دن میں پچاس، پچاس تار، خطوط اور پوسٹ کارڈ آ جاتے جن میں ان پر لعنت بھیجی جاتی اور ان میں قتل کی دھمکی دی جاتی۔‘        اس مقدمے کی کارروائی تقریباً دو ہفتے جاری رہی۔  4 نومبر 1943 کو عدالت کے سربراہ جسٹس بلیگ ڈن نے جیوری کے اراکین کے اتفاق سے ملزم رفیق صابر کو محمد علی جناح پر قاتلانہ حملے کا مجرم ٹھہرایا اور پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ قاتلانہ حملے میں محفوظ رہنے کے بعد جناح نے فوری طور پر ایک اخباری بیان جاری کیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا لیکن اللہ کے فضل و کرم سے مجھے کوئی شدید زخم نہیں آیا۔’میں اس وقت زیادہ کہنا نہیں چاہتا ہوں لیکن مسلمانوں سے پُرامن رہنے کی اپیل کرتا ہوں۔ ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ میں معجزانہ طور پر بچ گیا لیکن مجھے شدید افسوس ہے کہ یہ بزدلانہ حملہ ایک مسلمان نے کیا تھا۔‘