شام میں ایرانی پاسداران کے جنرل رضی موسوی کا قتل، خطہ کی صورتحال کشیدہ

Iran, Syria, General Razi Mosavi, IRGC, City42 , Hizb Ullah, Israel
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے پاسدران انقلاب کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل سید رضی موسوی اسرائیل کے حملے میں مارے گئے۔ انہیں شام میں تعینات ایرانی عسکری ماہرین میں سب سے با اثر اور اہم اثاثہ سمجھا جاتا تھا۔  

ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا  نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے دمشق میں زینبیا ضلع کے قریب میزائل حملہ کیا جس میں  پاسدران انقلاب کے کمانڈر بریگیڈیئر  جنرل سید رضی موسوی  کے مرنے کی سرکاری طور پر تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس حملے میں مزید ہلاکتوں کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔  تاہم یہ معلوم ہوا ہے کہ سید رضی موسوی کو شام میں ایران کے سفیر سے ملاقات کے بعد دمشق کے جنوبی مضافاتی علاقے میں قتل کیا گیا۔ سفیر نے بعد میں تصدیق کی کہ وہ واقعی موسوی سے ملاقات کر چکے ہیں، دمشق میں ایرانی سفیر کا کہنا تھا کہ سید رضی ایک "سفارت کار" تھے اور نائب مشیر کے عہدے پر  تعینات تھے۔ ایرانی سفیر کی اس وضاحت کے باوجود  انٹرنیشنل اور خود ایرانی میڈیا جنرل رضی کو شام میں متعین پاسداران انقلاب کے موثر ترین جنرل کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے۔

جنرل موسوی کو لبنان اور شام میں کئی دہائیوں کا تجربہ رکھنے والی تجربہ کار فوجی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔وہ IRGC کی  قدس فورس اور شامی حکومت کے درمیان رابطہ کاری کے انچارج تھے اور ایران کی شام میں موجود  افواج اور شام کے ساتھ ساتھ لبنان کی حزب اللہ تحریک کو ہتھیاروں کی ترسیل میں سہولت فراہم کرتے تھے۔  موسوی نے حزب اللہ کو ایران کی جانب سے  بیلسٹک میزائلوں کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔
  ایران کے پاسدارن انقلاب نے بھی اپنے کمانڈر کے شام میں مارے جانے کی تصدیق کردی ہے۔ پاسداران انقلاب کے مطابق دمشق میں تعینات بریگیڈیئر جنرل رضی موسوی شام میں  مزاحمتی یونٹ کے انچارج تھے۔  پاسداران انقلاب نے دھکمی دی ہے کہ اسرائیل کو رضا موسوی کے قتل کی قیمت چکانی ہوگی۔

سید رضی آئی آر جی سی کے اعلیٰ ترین جنرل جو پیر کو ایک اسرائیلی میزائل حملے میں مارے گئے تھے، آئی آر جی سی کے یونٹ 2250 کے سربراہ تھے۔ یہ خصوصی لاجسٹک یونٹ  ایران سے آنے والے سازوسامان، اسلحہ اور عملے کے ساتھ ساتھ  شام میں موجود  ایران کی حمایت یافتہ لبنانی افواج کی مدد کرنے کے لئے شام میں موجود ہے۔ اس یونٹ کو شام پہنچنے والے سینئر ایرانی حکام اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت اور میزبانی کا کام بھی سونپا جاتا ہے، جنہیں اس یونٹ کے ارکان عام طور پر شامی حکام کے ساتھ مل کر انجام دیتے ہیں۔
"سید رضی دمشق برانچ میں دفتر کے سربراہ تھے اور کئی سالوں سے خطے میں اپنی سرگرمیوں کے سبب ایک اہم ایرانی اثاثہ رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ کئی سالوں تک تہران میں یونٹ کے نمائندے کے طور پر کام کر چکے ہیں"۔

ایران کی حکومت کے لئے جنرل رضی کے قتل  کی اہمیت قدس فورس کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل اور حزب اللہ کے مرحوم فوجی سربراہ عماد مغنیہ کو  نشانہ بنائے جانے کے بعد سب سے بڑا صدمہ ہے۔

 سید رضی کے شام میں اسرائیل کے میزائل حملہ میں قتل کے بعد پیر اور منگل کی درمیانی شب تہران میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا جس میں شرکا نے اسرائیل سے انقتام لینے کا مطالبہ کیا۔

اس سے قبل اس سال کے آغاز میں  3 جنوری 2020 کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایران کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی گاڑی کو نشانہ بنایا  گیاتھا جس میں جنرل قاسم ساتھیوں سمیت مارے گئے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو امریکہ کی عراق میں موجود فورس نے ایک ڈرون کے زریعہ مارا تھا. 

تہران میں پاسداران انقلاب کے جنرل رضی موسوی کے دمشق میں  قتل پر احتجاج کرنے والے انتقام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

ایران اسرائیل کشیدگی

دمشق میں  ایران کے اہم ترین عسکری کمانڈر کے قتل سے ایران اور اسرائیل کے درمیان پہلے سے عروج پر پہنچی ہوئی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ قبل ازین یمن اور لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا اور ضزب اللہ ملیشیا حماس کے خلاف اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ کی ابتدا سے ہی اسرائیل پر براہ راست حملے کرتی رہی ہیں اور گزشتہ کچھ دنوں کے دوران حوثی ملیشیا کے حملوں کی وجہ سے بحیرہ احمر مین تجارتی جہازوں کی آمد و رفت عملاً بند ہو گئی ہے۔ اس پس منظر میں شام مین ایرانی جنرل پر مبینہ اسرائیلی حملہ کو کشیدگی میں مزید اضافہ کے عنصر کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر نظر رکھنے والے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ایران پر اندر سے انتقام کے دباؤ کے باوجود ایرانی حکومت اپنے پہلے سے طے کردہ منصوبوں سے زیادہ دور ہٹ کر اسرائیل کے خلاف کوئی براہ راست کارروائی کرنے کی طرف نہیں جائے گی۔