(قیصر کھوکھر) احد خان چیمہ کی گرفتاری کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور ڈی ایم جی لابی اتنا شور کیوں مچا رہی ہے اور احد خان چیمہ کے پیچھے کس کو بچانے کو کوشش ہو رہی ہے اور کیوں؟ آخر کیوں احد خان چیمہ کی گرفتاری نے پنجاب حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور تنقید کرنے والے اس بات پر پریشان ہیں کہ آخر احد خان چیمہ کی گرفتاری پر اتنا شور شرابہ کیوں ہے؟ کیا کسی حکمران کو ڈر ہے کہ کہیں اس کی گرفتاری سے کوئی پنڈورا باکس نہ کھل جائے اور یہ نوجوان افسر کہیں حکمرانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہ بن جائے۔
اس وقت احد خان چیمہ کی گرفتاری کے حوالے سے ہونے والی ہڑتال اور تالا بندی کے پیچھے پنجاب حکومت اور پنجاب کی افسر شاہی کے وہ کرپٹ عناصر ہیں جنہیں ڈر ہے کہ کہیں کل کلاں نیب انہیں بھی کسی کیس میں گرفتار نہ کر لے۔ وہ نیب کو اتنا دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اگلے مرحلے میں کسی بھی افسر پر ہاتھ نہ ڈالے۔ پنجاب کی افسر شاہی میں ایک شور شرابہ کی سی صورتحال برپا ہے اور ڈی جی نیب پنجاب کیخلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے لیکن سلام ہے ڈی جی نیب کو جنہوں نے پہلی بار پنجاب کی افسر شاہی پر ہاتھ ڈالا ہے اور پنجاب کی افسر شاہی کو ایک سخت پیغام دیا ہے کہ وہ بھی احتساب سے بالا تر نہیں ہیں۔ جس سے پنجاب کے بڑے بڑے برج کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا ہو گیا ہے اور ہر کسی افسر نے اپنے اپنے طور پر ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیئے ہیں۔
دفاتر کی تالا بندی اس لئے کی جا رہی ہے کہ متحد ہو کر نیب کو ایک پیغام دیا جائے کہ وہ مزید کسی پنجاب کے کسی افسر کو گرفتار نہ کرے اور اس میں چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ، پنجاب کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز پیش پیش ہیں۔ اس طرح یہ احتساب کا عمل روکنے کا ایک حربہ ہے۔ ماضی میں نیب نے افسر شاہی کے احتساب کی بجائے صرف سیاستدانوں کا احتساب کیا اور اس طرح افسر شاہی کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی ملتی رہی ہے اور اب نیب نے اپنا دائرہ کار تبدیل کر لیا ہے اور احتساب اور منصوبوں میں کمیشن اور کک بیکس لینے والے افسروں کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا ہے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نیب پنجاب نے مزید18افسران کی ایک لسٹ تیار کی ہے جس پر تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری عمر رسول، ایڈیشنل سیکرٹری ویلفیئر دانش افضال ، ایڈیشنل سیکرٹری عرفان علی کاٹھیا نے اپنے دفاتر کو تالے لگا کر ایک نیا پیغام دیا ہے اور پنجاب کے ڈی ایم جی افسران نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ احدخان چیمہ کی رہائی تک ایگزیکٹو اتھارٹی استعمال نہیں کریں گے اور اس طرح صوبہ پنجاب میں عملی طور پر ایک بغاوت کی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے۔ میں یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ یہ ڈی ایم جی افسران پنجاب اور وفاق کی سول سروس کے افسر ہیں، یہ پٹواری یا کلرک نہیں ہیں کہ یہ ہڑتال کرتے پھریں اور انہیں کوئی پوچھے بھی نہ۔ لیکن یہ ڈی ایم جی افسران پنجاب میں اتنے بپھرے ہوئے کیوں ہیں کیونکہ انہیں پنجاب حکومت کی مکمل آشیرباد اور سپورٹ حاصل ہے اور حتیٰ کہ پنجاب کابینہ نے بھی احد خان چیمہ کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن ڈی ایم جی افسران کی دفاتر کو تالا بندی کی مذمت نہیں کی گئی ہے ۔پی ایم ایس ایسوسی ایشن پنجاب کا کہنا ہے کہ ڈی ایم جی افسران کی اس ہڑتال سے ان کا کوئی تعلق نہیں، وہ بدستور سرکاری کام کرتے رہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ینگ پی ایم ایس افسران کو دباؤ میں لا کر ڈی ایم جی افسران کے اجلاسوں میں بلایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم میجر (ر) اعظم سلیمان خان نے ڈی ایم جی افسران کی اس ہڑتال کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کسی کو ہڑتال پر جانے سے روک نہیں سکتے لیکن وہ خود دفتر میں کام کریں گے کیونکہ وہ محکمہ داخلہ کے سربراہ ہیں وہ احتجاج یا ہڑتال نہیں کر سکتے ہیں۔ خطرہ اس وقت یہ ہے کہ پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ احد خان چیمہ کی گرفتاری کو ایک تحریک کی شکل دی جائے تاکہ نیب اگلے مرحلے میں چیف سیکرٹری پنجاب یا کسی سیکرٹری ، کمشنر یا ڈی سی یا وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف کوئی نیا ریفرنس نہ کھولے اور نہ ہی کوئی افسر سارے راز اگل دے۔ احدخان چیمہ تو ایک مہرہ ہے، ڈی ایم جی افسران کی یہ تحریک اصل میں پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ کو درپردہ بچانے کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔