سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرریاں غیرقانونی ہونے کا انکشاف

سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرریاں غیرقانونی ہونے کا انکشاف
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

( اکمل سومرو ) سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تقرریاں یونیورسٹیز ایکٹ کیخلاف ہونے کا انکشاف، وائس چانسلرز کے اُمیدواروں کی شارٹ لسٹنگ میں اہلیت کا معیار یونیورسٹیز ایکٹ سے ہی متصادم ہے۔

تفصیلات کے مطابق پنجاب کی سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز تقرری کیلئے کیو ایس رینکنگ، ٹائمز ہائیر ایجوکیشن رینکنگ کی فہرست میں شامل جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کی شرط عائد کرنا یونیورسٹیز ایکٹ اور قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یونیورسٹیز ایکٹ 1973، 1974، 1975، 2002، 2010، 2012 اور 2016 میں وائس چانسلر کے عہدے کیلئے پی ایچ ڈی ڈگری کو کیو ایس رینکنگ کے ساتھ مشروط نہیں کیا گیا حتیٰ کہ محکمہ ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے جاری ہونیوالے اشتہارات کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ کیو ایس رینکنگ کی عالمی سطح پر بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور ایسے ادارے کی رینکنگ کو صوبے کی سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے چناؤ کیلئے شرط بنانا غیر قانونی ہے۔ پنجاب میں 2008 کے بعد سے وائس چانسلر کی تقرریاں غیر قانونی ہیں۔

 پنجاب کی سرکاری جامعات میں وائس چانسلر کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن متعلقہ یونیورسٹی کے ایکٹ کا حوالہ دے کر کیا جاتا ہے جبکہ اسی ایکٹ میں غیر ملکی پی ایچ ڈی کی کوئی شرط شامل نہیں ہوتی۔ حکومت کی جانب سے وائس چانسلرز کےعہدے کی تقرری کیلئےغیر ملکی جامعات سے پی ایچ ڈی یافتہ افراد کو اضافی نمبرز دیے جاتے ہیں اور غیر ملکی پی ایچ ڈی کو لوکل پی ایچ ڈی پر ترجیح دی جاتی ہے۔