خالی شلوار کی کہانی

خالی شلوار کی کہانی
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

خالی شلوار پر لکھنا شروع کیا تو سعادت حسن منٹو کے افسانہ کالی شلوار سے کچھ  کاٹ دار جملے یاد آگئے۔ ایک کردار سلطانہ کی بے قدری کا اظہار کرتا یہ جملہ  پڑھیں۔

 ’نہ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے اسے صرف تین روپے کے قابل سمجھا‘۔

 یہ صرف سلطانہ ہی کا مسئلہ  نہیں، مجبوری، لالچ یا کسی بھی وجہ سے سودے بازی کرنے والے ہر شخص کےساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، یقین نہیں آتا تو حال میں آسمان سے زمین پر گرنے والے ایک ہیرو کو دیکھ لیں، استعمال کے بعد قیمت دو کوڑی کی ہوجاتی ہے، زمانے سے سلطانہ کا شکوہ  یہی تھا کہ کوئی لفٹ نہیں کرواتا۔

 ’مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے، پر اتنا مندا بھی تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل دیکھنے ہی میں نہ آئے‘۔

 شدید تنہائی اور مایوسی کا شکار ایک سیاست دان بھی آج کل اسی طرح کی کیفیت سے دوچار ہے، کوئی بھی بات نہیں کرتا بات نہیں سنتا، کبھی مودی نہیں سنتا تھا کبھی بائیڈن، اب تو بات پردیس سے دیس تک آگئی ہے یہاں بھی کوئی لفٹ نہیں کروا رہا، بار بار پکارنے کے باوجود کوئی نہیں سن رہا۔

 سلطانہ کا اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے یہ کہنا کہ ’دِس لیف ویری بیڈ‘ مطلب یہ زندگی بہت بری ہے ایک آفاقی سچ  ہے۔  تیرے میرے، اسمارٹ، ہینڈسم سب کیلئے ایک جیسا، کوئی مانے یا نہ مانے یونیورسل ٹرتھ ایک جیسا ہی رہتا ہے۔

 منٹو نے سلطانہ کا گھر تلاش کرنے کا طریقہ  بھی کافی منفرد بیان کیا تھا۔

 ’یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے‘ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کرلیا کرتی تھی۔

 پچھلے کچھ عرصے سے سیاست میں ڈرائی کلیننگ کا چلن بھی کافی عام  ہوگیا ہے، کئی جماعتوں کو توڑ کر لوگوں کو ڈرائی کلین کرکے حرام کو حلال بنا دیا جاتا ہے۔ بس اسی طرح سلطانہ کے فلیٹ کےنیچے بھی میلے کپڑوں کی دھلائی ہوتی تھی اور اپنی طرف سے سلطانہ بھی اپنے فلیٹ پر معاشرے  کے میلے کپڑے صاف کرتی تھی۔

 منٹو کی کالی شلوار کو وہیں چھوڑیں پچھلے کچھ عرصے سے اُلٹی شلوار کےعنوان سے ایک کہانی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں انتہائی غلط سبق دینے کی کوشش کی گئی تھی، اب غلط سبق تو ہم آپ سے شیئر نہیں کریں گے وہ آپ کو خود ہی گوگل پر سرچ کرکے دیکھ لیں، ویسے بتا دیا ہے کہ غلط ہے تو پھر رہنے ہی دیں، خیر آپ کی مرضی شلوار الٹی پہنیں یا سیدھی۔

 بس اتنا یاد دلانا تھا کہ ایک بار خبر اڑی تھی کہ ایک مشہور سیاست دان ایک جلسہ سے خطاب کیلئے الٹی شلوار پہن کر آگئے تھے، شاید انہوں نے بھی اس کہانی اُلٹی شلوار سے کوئی سبق سیکھ لیا ہو۔ سبق تو پہلے بھی قوم کو زبردستی پڑھائے گئے بلکہ سبق سکھایا گیا تھا جب دھرنے کےدوران ایک صاحب کہتے تھے کہ مخالفین کی شلواریں گیلی ہوگئی ہیں اور انہی دنوں اسلام آباد کے ایک انتہائی اہم مقام پر شلواریں لٹکا دی گئی تھیں۔

 سیاست کے میدان سے پھر ادب کا رخ کریں۔ منٹو کے افسانے کالی شلوار کا اختتام یاد کریں، جس میں منٹو نے سلطانہ اور مختار کو اور ہم سب کو یہ سمجھایا کہ ہر کہانی میں ایک نہ ایک شنکر ہوتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی طرح کا جادوگر ہوتا ہے، سلطانہ کو جو ممتاز جیسی کالی شلوار چاہیئے ہوتی ہے وہ  بھی پلک جھپکتے (ہزاروں لاکھوں بار پلک جھپکتے) میں حاضر کر دیتا ہے اور مختار کی پسند کے کالے بندے اسی کے جنتر منتر کے کارن سلطانہ کے کانوں سے غائب ہوکر مختار کے کانوں میں جگمگانے لگتے ہیں۔

 جناب شلوار کالی ہو یا سفید، الٹی ہو یا سیدھی یا پھر کہیں لٹکی ہوئی ہو شلوار خریدنے اور دھونے دھلانے کیلئے اسپانسر بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ شلوار بس خالی شلوار ہی ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔