آم کی ایکسپورٹ کو تاریخ کے سخت ترین چیلنج کا سامنا

آم کی ایکسپورٹ کو تاریخ کے سخت ترین چیلنج کا سامنا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: وحید احمد سرپرست اعلی پی ایف وی اے  کا کہنا ہے کہ کورونا کی عالمی وباءاور موسمیاتی تبدیلی سے آم کی ایکسپورٹ کو تاریخ کے سخت ترین چیلنج کا سامنا، لاک ڈاﺅن کی وجہ سے طلب میں کمی اور فضائی آپریشن محدود ہونے سے فریٹ میں غیرمعمولی اضافہ نے مشکلات کھڑی کردیں رواں سیزن آم کی ایکسپورٹ کا ہدف 80ہزار ٹن تک محدود کردیا، گزشتہ سال کی ایک لاکھ 30ہزار ٹن کی ایکسپورٹ کے مقابلے میں رواں سیزن 50ہزار ٹن کم ہو گی ایکسپورٹ کے ہدف میں کمی کے ساتھ ہی آم کی ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والے ریونیو میں بھی نمایاں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وحید احمد  کا کہنا تھا کہ گزشتہ سیزن ایک لاکھ تیس ہزار ٹن آم کی ایکسپورٹ سے 9کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا رواں سیزن ایکسپورٹ 5کروڑ ڈالر تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ کرونا کی عالمی وباء کی وجہ سے پاکستان سے آم کی ایکسپورٹ کا سیزن بے یقینی کا شکار ہے،  آم کی ایکسپورٹ 40فیصد تک کم رہنے کا خدشہ ہے ,کرونا کی عالمی وباءکی وجہ سے یورپ امریکا سمیت پاکستانی آم کی خریدار منڈیاں بند پڑی ہیں لاک ڈاﺅن کی وجہ سے ایئرلائنز، سیاحت، ہوٹلنگ اور شاپنگ سینٹرز بند ہونے سے دیگر اشیاءکی طرح آم کی کھپت بھی متاثر ہوگی۔

فضائی کمپنیوں نے فضائی کرایوں میں تین گنا اضافہ کردیا ہے گزشتہ سیزن 175 روپے فی کلو کرایہ وصول کرنے والی ایئرلائنز رواں سیزن یورپ کے لیے 550 روپے فی کلو کرایہ طلب کررہی ہیں خلیجی ریاستوں کے لیے 80روپے فی کلو کا کرایہ اب بڑھا کر 240روپے فی کلو کردیا گیا ہے ملک سے 55فیصد آم سمندر کے راستے، 20 فیصد فضائی راستے اور 25 فیصد زمینی راستے سے ایکسپورٹ کیا جاتا ہے ۔فضائی کمپنیوں کی جانب سے فریٹ میں ہوشربا اضافہ کی وجہ سے فضائی راستے سے آم کی ایکسپورٹ میں 70فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔

وحید احمد سرپرست اعلی پی ایف وی اے کا کہنا تھا کہ ایران اور افغانستان کو زمینی راستے سے آم کی ایکسپورٹ بھی لاک ڈاﺅن یا  کورونا کی وباء کی روک تھام کے پیش نظر سرحدوں کی بندش سے مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔ وفاقی حکومت آم کے ایکسپورٹرز کو فریٹ سبسڈی فراہم کرے گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ایندھن کی قیمتوں کے لحاظ سے کمی لائی جائے آم کے باغات فیکٹریوں، دفاتر اور پیک ہائوسز میں کرونا کے حفاظتی اقدامات کے لیے معاونت فراہم کی جائے۔

Shazia Bashir

Content Writer