پی ٹی آئی حکومت اور نئی بیوروکریسی

پی ٹی آئی حکومت اور نئی بیوروکریسی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

( قیصر کھوکھر) پی ٹی آئی کی حکومت کو وفاق اور پنجاب میں حکومت کرتے ایک سال ہو گیا ہے اور پنجاب میں چیف سیکرٹری اور آئی جی نئے تعینات ہو گئے ہیں جبکہ ان چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو وزیر اعظم عمران خان نے فری ہینڈ دے دیا ہے جنہوں نے ڈی ایم جی افسران اور پولیس افسران کی ایوان وزیر اعلیٰ کو سائیڈ لائن کرتے ہوئے تقرریاں شروع کر رکھی ہیں۔

اکثر سمریاں چیف سیکرٹری آفس سے ہی واپس محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی چلی جاتی ہیں۔وہاں سے دھڑا دھڑ نوٹیفکیشن جاری ہو رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان نے تمام افسر شاہی اور خاص طور پر فیلڈ افسران جن میں اے سی ، ڈی سی ڈی پی او ، آر پی او ، کمشنرز اور دیگر محکموں کے افسران شامل ہیں انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ اراکان اسمبلی کو ضرور ملیں انہیں دفاتر میں عزت بھی دیں لیکن کام صرف اور صرف میرٹ پر ہی کریں۔

نئے چیف سیکرٹری پنجاب کی تعیناتی سے قبل پنجاب میں اے سی ، تحصیلدار ، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کی تعیناتی اراکان اسمبلی کی سفارش پر ہو رہی تھیں لیکن اس بار پنجاب کے تمام اے سی نئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری شوکت علی نے بغیر کسی سفارش کے میرٹ پر تعینات کر دیئے ہیں اور تمام کے تمام اے سی کو ادھر ادھر کر دیا گیا ہے۔ پنجاب میں نئے آر پی اوز اور نئے کمشنرز تعینات کر دیئے گئے ہیں اور لاہور شہر میں سی سی پی او اور ڈی آئی جی آپریشن بھی نئے آ گئے ہیں۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اراکان اسمبلی اب کیا کریں گے اور یہ کس طرح سیاست کریں گے کیونکہ پنجاب میں اراکان اسمبلی کی ساری سیاست ہی تھانہ کچہری کے گرد گھومتی ہے اور پٹواری اور تھانیداروں کے تبادلے کرانے میں یہ اراکان اسمبلی مصروف رہتے ہیں اور دفاتر کے جب چکر لگاتے ہیں تو ان کے ساتھ ان تبادلے کرانے والوں کا ایک رش ہوتا ہے۔ ایوان وزیر اعلیٰ سے ایک وقت میں تمام ٹیلی فون کانہ صرف ان تبادلوں کے بارے میں آیا کرتی تھیں۔

اب یک دم وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے اور حتیٰ کہ ان کے انتہائی قریبی رشتہ داروں کو بھی کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری کیپٹن (ر) اعجاز احمد جعفر جو کہ وزیر اعلی پنجاب کے فرسٹ کزن ہیں ان کی خدمات پنجاب سے سرنڈر کر کے انہیں وفاق بھیج دیا گیا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے پھوپھا سابق ڈی پی او رحیم یار خان امیر تیمور کو بھی تبدیل کر کے کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ اس طرح عملی طور پر ایوان وزیر اعلیٰ اور وزیر اعلیٰ پنجاب بیوروکریسی کے تقرر و تبادلوں کے حوالے سے غیر فعال ہو گئے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان نے ایوان وزیر اعلیٰ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو روک دیا ہے کہ وہ چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان اور آئی جی پنجاب پولیس شعیب دستگیر کے انتظامی اور آپریشن معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ایک اچھے انسان ہیں، انہوں نے بھی وزیر اعظم کے اس فیصلے کی تائید کر دی ہے اور اپنے سیاسی معاملات پر توجہ دینا شروع کر دی ہے اور کابینہ کے باقاعدگی سے اجلاس شروع کر دیئے ہیں اور اب نئے چیف سیکرٹری پنجاب اور نئے آئی جی پولیس پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ کے پی کے پولیس کے طرز پر نتائج دےں تاکہ پولیس کو بھی کے پی کے پولیس کی لائن میں کھڑا کیا جا سکے۔ چیف سیکرٹری نے فیلڈ افسران کو ہدایات دے رکھی ہیں کہ وہ دفاتر میں اپنی حاضری یقینی بنائیں اور کھلی کچہریاں لگائیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ چیف سیکرٹری نے آئی جی پولیس کے ساتھ مل کر ڈویژنل ، ضلع اور تحصیل کے دورے کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے اور گزشتہ دنوں چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان نے بہاولپور ڈویژن کا دورہ کیا ہے جہاں پر انہوں نے گڈ گورننس، سروس ڈلیوری اور اوپن ڈور پالیسی کی پراگریس کو چیک کیا ہے چیف سیکرٹری نے کمشنر ز اور ڈی سی اور آر پی اوز اور ڈی پی اوز کو کھلی کچہریاں لگانے اور ان کچہریوں کے نتائج اور فیڈ بیک سے چیف سیکرٹری اور آئی جی آفس کو آگاہ کرنے کا ٹاسک دیدیا ہے اور اس سارے عمل کی مانیٹرنگ شروع کر دی ہے۔

دیکھتے ہیں کہ جس طرح ناصر خان درانی نے کے پی کے پولیس کو کھڑا کیا اور اب کیا اسی طرز پر شعیب دستگیر بھی انہی لائن پر کام کرتے ہوئے پنجاب پولیس کا مورال بلند کرتے ہیں یا کہ نہیں۔ اب یہ چیف سیکرٹری اور آئی جی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈی سی ، کمشنرز، آر پی اوز اور ڈی پی اوز کو بھی فری ہینڈ دیں اور ان کے کام میں کوئی مداخلت نہ کرے اور تمام ٹرانسفر پوسٹنگ خاص طور پر بیٹ افسر، ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کی تقرری میرٹ پر کی جا سکے تاکہ عوام کو نچلی سطح پر انصاف مل سکے۔

چیف سیکرٹری کو چاہیے کہ وہ سیکرٹریوں کو بھی پالیسی بنانے اور ان پٹ دینے اور سمریاں بھیجنے اور تمام انتظامی اور آپریشنل اور اکیڈمک فیصلے لینے میں مکمل طور پر آزادی دی جائے۔ تاکہ محکموں کے سیکرٹری بھی آزادی کے ساتھ گڈ گورننس کےلئے پالیسیاں بنا سکیں اور گڈ گورننس کے رزلٹ سامنے آ سکیں۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر