عرفان ملک : چینی سکینڈل کی تحقیقات میں اہم پیشرفت , ایف آئی اے نے سکینڈل کا فرانزک آڈٹ مکمل کر لیا، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ شوگر ملز مالکان نے چینی بنانے کے ساتھ ساتھ گنے سے بننے والی دیگر پروڈکٹ سے اربوں روپے کمائے.
کسی بھی سکینڈل کی تحقیقات میں پہلی بار فرانزک آڈٹ ، رپورٹ میں بڑے انکشافات، شوگر مل مالکان نے گنے سے بننے والی دیگر پروڈکٹس بگاس ، پھوک ، شیرا اور گار سے بھی اربوں روپے کمائے، جن کی فروخت کا ریکارڈ بھی غائب ،اربوں کا ٹیکسں بھی بچایا گیا ۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ شوگر کے کاروبار میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں ، فرانزک آڈٹ کے دوران شوگر ملزمالکان کی جانب سے مختلف بینکوں میں ٹرپل اینٹریزکا بھی انکشاف ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سبسڈی دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ، شوگر ملز مالکان پہلے ہی کسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔ کئی کئی سال ادائیگی نہیں کرتے ۔آئندہ چند روز میں رپورٹ وزیر اعظم کو بھی بھجوا دی جائے گی۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ:
ایف آئی اے انکوائری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چینی کی قلت اورقیمتوں میں اضافےسےمتعلق بااثرنامورسیاسی شخصیات ملوث نکلیں۔ چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ جہانگیرترین کےجےڈبلیو ڈی گروپ نے اٹھایا اور56کروڑکی سبسڈی حاصل کی. دوسرےنمبرپرخسروبختیارکےبھائی کی شوگرملزنے45 کروڑجبکہ تیسرےنمبرپرآل میوز گروپ نے40کروڑکی سبسڈی لی.
رپورٹ کےمطابق پانچ سال میں دی جانےوالی سبسڈی میں جےڈبلیوڈی نے3ارب،ہنزہ گروپ نے2.8 ارب، فاطمہ گروپ نے2.3ارب کی سبسڈی لی۔شریف گروپ نے5 سال میں نے1.4اوراومنی گروپ نے90کروڑ کی سبسڈی لی.
رپورٹ میں چینی کی برآمدکافیصلہ غلط قراردیتےہوئےکہاگیاکہ چینی برآمدسےقیمتوں میں اضافہ ہوا۔ چینی برآمدکرنےوالوں نےسبسڈی کی رقم بھی وصول کی اورقیمت بڑھنےکابھی فائدہ اٹھایا۔ چینی کی قیمتوں میں کمی اوراضافے میں سٹہ مافیا بھی ملوث ہےجن کیخلاف آئی بی اوراسپیشل برانچ کو کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق شوگرایڈوائزری بورڈوقت پرفیصلےکرنےمیں ناکام رہا،دسمبر 2018 سے جون 2019 تک چینی کی قیمت میں16روپےفی کلواضافہ ہوا۔اس عرصےکےدوران کوئی نیاٹیکس نہیں لگایا گیا.