لاپتہ افراد کو تلاش کرنا ریاست کا کام ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ

لاپتہ افراد کو تلاش کرنا ریاست کا کام ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ
کیپشن: IHC
سورس: Google Images
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(احتشام کیانی): اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دئے ہیں کہ لاپتہ افراد کو تلاش کرنا ریاست کا کام ہے۔ اگر وہ سرحد پار کرکے افغانستان چلے گئے تو بھی ریاست ہی کی زمہ داری بنتی ہے۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ میں مسنگ پرسنز کیسز کے عدالتی فیصلوں کے خلاف وفاق کی انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے روبرو پیش ہو کر حکومتی موقف پیش کیا۔ 

جسٹس عامر فاروق نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ عدالت نے پروڈکشن آرڈر مانگے تھے وہ کہاں ہیں؟ عدالت کو اس چیز سے کوئی مطلب نہیں کہ کمیشن کیسے کام کر رہا ہے۔آپ نے جو رپورٹ دی اس میں تو کمیشن کی تعریفیں کی گئی ہیں جس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہ صرف کورٹ کی انڈرسٹینڈنگ کے لیے بتایا تھا کہ کمیشن کیسے کام کرتا ہے وفاق نے پروڈکشن آرڈر کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کر رکھی ہے۔انہوں نے کہا کہ پروڈکشن آرڈر کے مطابق لاپتہ غلام قادر سیکرٹ اسٹیبلشمنٹ کی تحویل میں ہو سکتا ہے جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اسے کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے۔چھ ماہ میں پیش نہ کیا گیا تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔اور یہ بتائیں کہ وفاق کمیشن پروڈکشن آرڈر پر عمل درآمد کیسے کراتا ہے؟  

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ نظرثانی درخواست کس کے کہنے پر فائل کی گئی؟ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرائے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تمام ایجنسیوں کو موبالائز کرے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئے کہ وفاقی حکومت کے علم میں آ گیا کہ کچھ لوگ لاپتہ ہیں تو انہوں نے کیا کیا؟  آپ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ بس عدالتوں میں چلتا رہے۔آپ لاپتہ افراد کی عدم بایابی پر عائد جرمانوں کے خلاف آئے تھے، بتائیں اس میں کیا خرابی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے عدالت سے درخواست کی کہ آج کی سماعت ملتوی کی جائے، آئندہ سماعت پر دلائل دونگا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیس سماعت کیلئے فکس کر کے پہلے بتایا جاتا ہے اور عدالت میں آپکا یہ بیان ہےآپ ڈویژن بنچ کے سامنے پیش ہوئے ہیں عدالتی ڈیکورم کا تو خیال کریں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ سنگل بنچ نے دور حاضر کے مطابق حقیقت پر مبنی جرمانہ عائد کیا۔

جسٹس عامر فاروق کا استفسار ایک شخص لاپتہ ہو جاتا ہے تو اسکو ڈھونڈنا ریاست کا کام ہے یا نہیں۔ کیا ملکہ برطانیہ کے خلاف رٹ جاری کر دیں یا امریکہ کے صدر کو نوٹس کر دیں۔بالاخر یہ ریاست کی ہی ذمہ داری ہے کہ پاپتہ شخص کو ڈھونڈیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کوئی جواز نہیں ہے کہ کہہ دیں کہ بارڈر کراس کر کے افغانستان بھاگ گیا۔افغانستان خلاف قانون چلا گیا تو وہ بھی ریاست کی ہی ذمہ داری ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپکی اب تک مجھے کسی بات کی سمجھ نہیں آئی۔جسٹس فاروق نے استسفار کیا کہ وفاق کیا چاہتا ہے کہ اپیلیں منظور کر کے درخواستیں خارج کر دیں۔

 ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود جواب دیا کہ جی، ہم یہی چاہتے ہیں۔

 جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں کہ وہ اسے منظور کر لےاگر کابینہ کہتی ہے کہ ان لاپتہ لوگوں کو نہیں ڈھونڈنا تو رٹ خارج کر دیتے ہیں۔ریاست پر ہم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ذمہ داری جرمانے کے ذریعے ہی ڈالنی ہے۔