(ملک اشرف) خواتین پر تشدد روکنے کیلئے قانون پرعمل کرنے میں پنجاب حکومت خود رکاوٹ بن گئی، بجٹ میں رقم مختص نہ ہونے کو جواز بنا کر وومن پروٹیکشن سنٹرز قائم کرنے سے ہاتھ کھینچ لیے، تحفظ خواتین قانون پر 5 سال گزرنے کے باوجود عملدرآمد نہ کرنے کی وجوہات لاہور ہائیکورٹ میں پیش کردی گئیں۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ کے روبرو سیکرٹری سوشل ویلفیئر اور بیت المال کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی، سٹی فورٹی ٹو نے رپورٹ کی کاپی حاصل کرلی۔رپورٹ کے مطابق رقم مختص نہ ہونے کی وجہ سے فوری طور پر سنٹرز نہیں بنائے جا سکتے، خواتین کو تشدد سے تحفظ دینے کیلئے کرائسسز سنٹرز کو پروٹیکشن سنٹر کے طور پر استعمال کرنے کی سمری بھجوائی تھی، پہلے سے موجود کرائسسز سنٹرز کی حیثیت تبدیل کرنے کیلئے قانون میں کوئی گنجائش نہیں، قانون میں ترمیم کر کے بے نظیر بھٹو کرائسسز سنٹرز کو پروٹیکشن سنٹرز کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔
رپورٹ کے مطابق قانون میں ترمیم کیلئے معاملہ کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس زیرغور ہے، خواتین پر تشدد کیخلاف بنائے گئے 2016ء کے قانون پر موثر عملدرآمد کیلئے 2017ء میں تحفظ خواتین اتھارٹی قائم کی گئی، اتھارٹی اب تک 125 خواتین کو انصاف فراہم کر چکی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ لاہور اور ایک دوسرے ضلع میں خواتین پروٹیکشن سنٹرز کے قیام کیلئے سالانہ بجٹ میں 290 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں، قانون میں ترمیم کے بعد پنجاب کے 12 اضلاع میں قائم کرائسسز سنٹرز کو وومن پروٹیکشن سنٹرز میں تبدیل کیا جائے گا۔