ایک آئینی معاملے کیلئے پورے آئین کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس

Supreme Court Punjab Election Review Case, City42
کیپشن: File Photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک آئینی معاملے کیلئے پورے آئین کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا، اپیل کا حق دینے کیلئے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیئے۔ نظرثانی اور اپیل کو ایک جیسا کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ عدالت کو حقاٸق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔

 پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیس کی سماعت چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سُپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ کررہا ہے۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

 اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 188 کے تحت عدالت کو نظرثانی کا اختیار ہے۔ آرٹیکل 188 کے تحت کوٸی حد مقرر نہیں۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کا اختیار قانون سازوں کے پاس موجود ہے، نظرثانی اور اپیل کو ایک جیسا کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ عدالت نے حقاٸق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا،جسٹس اگر نظرثانی کا داٸرہ اختیار بڑھا دیا جائے تو کیا تفریق نہیں ہوگی۔

 اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے متعلق سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے موجود ہیں، آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں نظرثانی کیلئے الگ دائرہ کار رکھا گیا ہے۔ نظرثانی اپیل کے حق سے کچھ لوگوں کے ساتھ استحصال ہونے کا تاثر درست نہیں۔

 اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آہستہ آہستہ دلائل سے ہمیں سمجھائیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ اپیل کے حق سے پہلے آئین لوگوں کا استحصال کرتا رہا ہے، ایک آئینی معاملے کیلئے پورے آئین کو کیسے نظرانداز کریں۔

 جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایکٹ سے پہلے 184/3 میں نظرثانی کا کوئی طریقہ نہیں تھا، حکومتی قانون سازی سے کسی کیساتھ استحصال نہیں ہوا۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کیلئے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے۔