رانا سہیل احمد: وزیراعظم عمران خان دورہ روس پر جانے کا حتمی اعلان کی تصدیق دفترخارجہ نے کردی ہے مگر کیا سرد جنگ دور کے رقیب کیا اب حلیف بن پائیں گے ? اس کا جواب دونوں اطراف سے کئے جانے والے معاہدوں، ملاقاتوں اور مسکراہٹوں سے ہوگا۔
ابھی جام ولب کے درمیان بہت فاصلہ ہے ۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے لیکن اس سوال کا جواب کہ کیا عمران خان سابق پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کی طرح دباؤ میں آجائیں گے یا نصف صدی کے بعد ہونے والا دورہ روس ایک حقیقت بن پائے گا اس کا جواب آنے والے کچھ دنوں میں مل جائے گا ۔
8جون 1949 میں ایران میں پاکستانی اور روسی سفارتکاروں کے ذریعے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو روسی صدر جوزف اسٹالن کی جانب سے ملنے والی دورہ روس کی دعوت ملتے ہی سفارتی ایوانوں میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مؤرخ عائشہ جلال نے اپنی کتاب ''پاکستان سٹیٹ آف مارشل رول'' میں لکھا ہے کہ امریکا کی حمایت یافتہ مضبوط لابی جس کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد کررہے تھے وزیراعظم کو دورہ ماسکو سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کو یہ دھمکی بھی دی کہ حکومت کرو یا پھر جاؤ۔
اسی طرح ایک اور تجزیہ نگار اختر بلوچ نے لکھا ہے کہ کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر لارڈ گریفٹی سمتھ نے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو دھمکی دی تھی کہ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اگر ماسکو گئے تو پاکستان برطانیہ اور امریکا کی حمایت سے محروم ہو جائے گا۔ ڈیلی ٹیلی گراف میں ہیڈ لائن شائع ہوئی کہ پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی دولت مشترکہ ممالک میں سے روس کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہ مملکت ہوں گے۔ روسی دورے کی تنسیخ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کن موڑ تھا۔ اس کے پیچھے کئی پوشیدہ راز تھے۔
تاہم اب وزیراعظم عمران خان روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی دعوت پر 23 فروری سے دورہ روس کا آغاز کررہے ہیں۔ 23 سال بعد یہ کسی منتخب پاکستانی وزیراعظم کا پہلا دورہ روس ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے مارچ 1999 میں ماسکو کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف ، سابق صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی روس کا دورہ کرچکے ہیں ۔
امریکا اس وقت یوکرائن تنازع پر روس سے سینگ پھنسائے ہوئے ہے جبکہ بھارت روس کا سرد جنگ دور کا بااعتماد اتحادی ہے جو اب امریکا سے انتہائی قریبی عسکری ،سفارتی ومعاشی تعلقات انجوائے کررہا ہے. وزیر اعظم عمران خان کے اس دورے کا دنیا انتہائی باریک بینی سے مشاہدہ کرے گی لیکن کیا پاکستان اور روس بھی اپنا کڑوا ماضی دفن کرکے آگے بڑھ پائیں گے?