آپ سے وعدہ تھا کہ آپ کو زندگی پر مبنی کہانی سناؤں گا اور یہ ہےانیس سو اسی میں میرے سامنے آنے والی ایک کہانی، جس کا مرکزی کردار ایک بے کس بیٹی ہے اوردوسرا کردارہیں ہم سب بے حس لوگ ۔
اس زمانے میں ہم دوستوں کا ٹھکانہ ریگل چوک اورمال روڈ ہوا کرتا تھا کیونکہ سب کے گھروں سے نزدیک اور پر رونق جگہ یہی تھی،یہاں ہم چائے پیتے،سموسے کھاتے یا کبھی کبھار گو گو ریسٹورنٹ سے آئس کریم کھانے کی عیاشی کرلیتے،وہاں کبھی کبھار ایک نو عمرلڑکی ہماری توجہ کا مرکز بن جاتی، وہ کالج گرل تو ہو ہی نہیں سکتی، زیادہ سے زیادہ ساتویں یاآٹھویں کلاس کی اسٹوڈنٹ لگتی تھی،اسکی گواہی اس کا یونیفارم جیسا لباس بھی دیتا ،وہ کبھی سفید اورکبھی نیلے رنگ کی قمیض اور سفید شلوار پہنے ہوتی، تپتی دوپہروں میں وہ نہ جانے کہاں سے چلتی پھرتی اس سڑک پر آجاتی اور گوگو سے ندائے ملت والی عمارت تک کے چکر لگاتی رہتی( وہ بلڈنگ جہاں کبھی پی آئی اے کا دفتر ہوا کرتا تھا) اکثر راہگیر لڑکے یا مرد اس کے پیچھے لگ جاتے، جب اس لڑکی کو اپنے تعاقب کا احساس ہوتا تو وہ کھڑی ہوجاتی، پتہ نہیں کیا کہتی ، تعاقب کرنے والے یکایک رفو چکر ہو جاتے،جب اسے کوئی ادھیڑ عمر آدمی مل جاتا تو وہ اس کے ساتھ باتیں کرتی اور بہت مطمئن نظرآتی، معاملہ بہرحال مشکوک اور پراسرار تھا،میرے یا میرے کسی ساتھی میں کبھی اس سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی، ایک دن ہمارے ایک کلاس فیلو نے جو زندگی کا قرض اتار کرواپس جا چکا ہے، انکشاف کیا کہ اس نے اس لڑکی سے بات کی تھی، لڑکی بہت مظلوم ہے، اس کے پاس تو رات سونے کیلئے کوئی جگہ تک نہیں، یہ سب سن کرمیرے وجود میں سنسنی پھیلنے لگی، میں نے پوچھا، کیا تم مجھے اس سے ملوا سکتے ہو؟ میں اس کی کہانی اسی کی زبانی سننا چاہتا ہوں، اگلے روز میں ہم اس لڑکی کے ساتھ گوگو کے اندر بیٹھے تھے۔ گڑیا جیسی اس لڑکی کا نام بھی گڑیا تھا،اور گڑیا بول رہی تھی،میں اسکی کہانی ختم ہونے تک سکتے میں رہا ۔ تین سال پہلے میں تیرہ برس کی تھی ،آٹھویں میں پڑھ رہی تھی،محلے کے کچھ لڑکوں نے آتے جاتے مجھ پرآوازے کسنا شروع کر دیئے، دوسری لڑکیاں بھی ان لڑکوں سے تنگ اور خوفزدہ تھیں، میراباپ مرچکا ہے، بڑا بھائی محنت مزدوری کرکے میری اور ماں کی کفالت کر رہا تھا،ماں نے کئی بار ان لڑکوں کو ڈانٹا،مگر وہ ماں کی بھی بے عزتی کردیتے، کئی بار انہوں نے ماں کو گالیاں اور دھمکیاں بھی دیں،ماں ان کے گھروں میں بھی گئی،وہاں سے جواب ملا، اپنی بیٹی کو سنبھالو، اس کے کرتوت دیکھو، لڑکے ویسے ہی تو نہیں کسی کے پیچھے لگ جاتے، پھر وہ لڑکے ہمارے دروازے پر کھڑا ہونا شروع ہوگئے،اونچی آواز میں بے ہودہ گفتگو کرتے،،میں جب ماں سے کہتی، بھائی کوبتاؤں گی تو وہ سختی سے منع کردیتی۔پھر ایک دن کیا ہوا؟ میں اسکول سے واپس آرہی تھی ، ان لڑکوں نے مجھے روک لیا اورچھیڑ خانی کرنے لگے، میں رو رہی تھی، یہ منظر محلے کے کئی لوگوں نے بھی دیکھا، کچھ نے ان لڑکوں کو جھڑکا بھی، مگروہ باز نہ آئے ایک لڑکے نے میرا اسکول بیگ چھین کر سڑک پر پھینک دیا ،میں نے روتے ہوئے گھر کی جانب دوڑ لگا دی، گھر میں داخل ہوئی تو خلاف معمول بھائی موجود تھا ، میں نے ساری بات بتادی، بھائی طیش میں آگیا،اس نے چھری پکڑی اور ماں کے روکنے کے باوجود تیزی سے باہر نکل گیا، وہ آوارہ لڑکے سڑک پر ہی موجود تھے، بھائی نے انہیں چھریاں مارنی شروع کردیں، ارد گرد کے سارے گھروں سے لوگ جمع ہو گئے، بھائی کی چھریاں کھانے والا ایک لڑکا زیادہ خون بہہ جانے سے سڑک پر ہی دم توڑ گیا، پولیس آئی اور بھائی کو پکڑکر لے گئی، ماں پہلے گھر میں پھر گلی میں کھڑی بین ڈالتی رہی،ماں مجھے مورد الزام ٹھہرا رہی تھی، کہہ رہی تھی نہ تم بھائی کو بتاتی نہ وہ چھری لے کر جاتا، رو تو میں بھی رہی تھی مگر دلاسہ دینے والا کوئی نہ تھا،پھر ہم ماں بیٹی تھانے گئیں ، پولیس والوں نے ملاقات نہ کرائی،محلے کے کچھ لوگوں نے بھی کوشش کی ،ہم بھائی سے نہ مل سکیں،ماں روتے روتے مجھ سے سوال کرتی،کیا انہوں نے تمہارے بھائی کو کھانا دیا ہوگا؟ وہ تمہارے بھائی کو مارتے تو نہیں ہونگے؟ چند دنوں بعد پتہ چلا بھائی جیل جا چکا ہے،اب پولیس اسے جیل کی وین میں بٹھا کر کچہری لے کر جاتی جہاں اس کیخلاف مقدمہ چل رہا ہے، ہمارے لئے وکیل کرنا ممکن نہ تھا، جس وکیل کے پاس بھی جاتے وہ فیس مانگتا، جب اسے اپنے حالات بتاتے تو اس کی توجہ کا مرکز میں بن جاتی، شاید میرے ہی لالچ میں ایک وکیل نے ہماری مدد کا وعدہ کیا اور کہا ، وہ ضمانت کیلئے اپیل کرے گا، ایک دن وہ ہمیں رکشے پر بٹھا کر کچہری لے گیا، رکشے میں وہ سارے راستے مجھ سے چپکا رہا،کچہری پہنچے تو منشی خانے کے قریب بھائی پولیس وین میں بیٹھا نظر آگیا،اس نے بھی ہمیں دیکھ لیا،پہلے مسکرایا پھر سر جھکا لیا،اسے ہتھکڑیاں ہی نہیں پاؤں میں بھی زنجیریں پہنائی گئی تھیں، وکیل نے بتایا کہ جیلوں میں قتل کے ملزموں کو چوبیس گھنٹے ایسے ہی رکھا جاتا ہے، زنجیروں سے بچنے کیلئے بڑے پیسے دینا پڑتے ہیں،میں اور ماں بھائی کے قریب جانے لگیں تو پولیس والے نے روک دیا، وکیل نے بتایا، یہاں ملاقات بھی پیسوں سے ہوتی ہے، پھر وکیل ہی کے کہنے پر ایک سپاہی نے بھائی کے قریب جانے کی اجازت دیدی، اس نے ماں کا بوسہ لیا، میرے سر پر ہاتھ رکھا، کہہ رہا تھا، جلدی چھوٹ کر گھرواپس آجاؤں گا، ماں نے ہچکیاں لیتے ہوئے اسے بری ہوجانے کی دعائیں دیں، مجھ سے تو بولا نہیں جا رہا تھا، اسے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی،اسے بتانا چاہتی تھی کہ ہم ماں بیٹی کئی کئی دن بھوکی سو جاتی ہیں، میرا اسکول جانا ختم ہو گیا ہے،رشتے دار اور محلے کے لوگ مدد کی بجائے طعنے دیتے ہیں، پہلے چند لڑکے مجھے تنگ کرتے تھے اب تو سب شیطانی آنکھوں سے گھورتے ہیں، میری سوچیں نہ جانے بھائی کے دل میں کیسے اتر گئیں، اس نے رونا شروع کردیا،اب ہم تینوں رو رہے تھے،پولیس کے ایک افسر نے سپاہی کو حکم دیا ، انہیں یہاں سے لے جاؤ، جب تک بھائی کو وین میں بٹھا کر واپس نہ لیجایا گیا ،ہم اسے اور وہ ہمیں تکتا رہا، بھائی کو سزائے موت ہو گئی،اسے لاہور سے ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا،ہمارے لئے اس سے ملنے کے راستے بند تھے، ساہیوال جانے کا کرایہ تک نہ تھا، اگر کسی سے مانگ تانگ کر چلے بھی جاتے تو جیل میں ملواتا کون؟ وکیل نے بھی باتوں باتوں میں اپنی اجرت بتا دی تھی،محلے کے لوگ کہتے تھے جسے پھانسی ہوجائے اس کی ملاقاتیں بند کر دی جاتی ہیں، کئی ہفتوں بعد وکیل پھرہمارے گھر آیا،ماں سے کہہ رہا تھا، بڑی عدالت میں ایک عرضی ڈال دیتے ہیں ، تمہارے بیٹے کو ساہیوال سے لاہور جیل لانے کی ،وہ لاہور آگیا تو آپ اسے پھانسی لگنے سے پہلے مل توسکوگے، ہم ماں بیٹی دو تین بار اس کے ساتھ عدالت گئیں، جہاں کارروائی تو کچھ نہ ہوتی البتہ اگلی تاریخ پڑ جاتی، عدالت میں جب وکیل بولتا تو جج اس کی بجائے مجھے تکتا رہتا، میرے جسم میں کپکپی ہونے لگتی، یہ بات وکیل نے بھی محسوس کی اورعدالت سے باہر مجھ سے کہا، جج تمہیں بہت غور سے دیکھتا ہے، تم پر مہربان ہوسکتا ہے، ایک روز وکیل نے ماں سے کہا، اماں تمہاری کورٹ کچہری جانے کی عمر نہیں، تاریخ پر تمہاری بیٹی ہی چلی جایا کرے،وہ مجھے ساتھ لے جانے لگا، اس کے پاس موٹر سائیکل تھی مگر مجھے رکشے پر لے کر جاتا،راستے میں چھیڑ خانی کرتا ، میں خاموش رہتی، کبھی ماں کو نہ بتایا، سوچتی تھی،بول پڑی تو بھائی سے ملاقات سے محروم نہ ہو جاؤں، ایک اور پیشی آ گئی، میں وکیل کے ساتھ عدالت کے باہر کھڑی تھی، ہماری باری ابھی دور تھی، وکیل مجھے لوگوں سے پرے لے گیا،اس نے آہستگی سے مجھے مشورہ دیا۔ آج جج تمہیں دیکھے تو اسے آنکھ مار دینا، اور ایسا ہی ہوا، میں نے آنکھ ماردی۔جج کرسی سے اٹھا اوراندر چلا گیا،وکیل نے میری طرف دیکھا تو میں نے اسے بھی آنکھ ماردی، اس نے مجھے اپنی جگہ کھڑے رہنے کا اشارہ کیا، پھر ایک آدمی میرے قریب آیا میرے کان میں کہنے لگا، تمہیں جج صاحب بلا رہے ہیں،پچھلے کمرے میں، وکیل وہیں رہا اور میں اس کے ساتھ چل دی، گڑیا اس دن ٹوٹ گئی بھائی کو ساہیوال جیل میں پھانسی دیدی گئی، مجھے ماں کی کفیل بننا تھا،بن گئی، ماں رات دیر گئے میراگھر لوٹنا پسند نہیں کرتی تھی، مجھے ڈانٹتی اورمارتی، کہتی تھی محلے والے شک کرتے ہیں، تم نے باز نہیں آنا تو گھر نہ آیا کرو،میں اب ہفتے دس دن بعد جاتی ہوں،ماں کو خرچہ دینے ۔ اس سے پہلے کہ وہ اور بولتی، میں نے ٹوک دیا،تو تم رہتی کہاں ہو؟ میرا کوئی گھر نہیں ہے،تمہارے پاس جگہ ہے تو وہاں آ جایا کروں گی۔ جہاں رات ہوجائے وہیں سو جاتی ہوں،،سب سے محفوظ جگہ سمن آباد میں ایک ایکٹرس کا خالی گھرہے،جو بند اور ویران پڑا ہے،مجھے اس گھر کا راستہ میرے ہی جیسی ایک لڑکی نے بتایا تھا، کپڑے دھوبی کے پاس ہوتے ہیں،وہیں بدل لیتی ہوں،دھوبی میرا رازدان ہے،میرے لئے کبھی کبھی کھانا بھی اپنے گھر سے لے آتا ہے ، جوتی بدلنی ہو تو نئی خرید کر پرانی پھینک دیتی ہوں، یہ سب بتا کر وہ قہقہہ لگاتے ہوئے کھڑی ہوئی اور گوگو سے باہر نکل گئی۔میں اس کی کہانی ختم ہونے تک سکتے میں رہا۔
اس کہانی کا مرکزی کردار ابھی زندہ ہے اور اس نے دوسال پہلے خدا جانے کس سے میرا نمبر حاصل کرکے مجھے فون کیا ۔اب وہ مجھ سے ملنا چاہتی تھی میں اس سے ملنے اس کے چھوٹے سے گھر پہنچا تو اس کی تین بیٹیاں دیکھیں جو ہوبہو اسکا عکس تھیں پتہ چلا اس کی شادی ہوئی تھی شوہر انتقال کرچکا ہے ایک بیٹا ہے جو اسے اور بہنوں کو بات بے بات دھونس دیتا ہے۔ اب وہ چاہتی تھی کہ اس کی بیٹیوں کو ماڈلنگ کے شعبے میں کام مل جائے تاکہ اس کا بڑھاپا اور ان کی جوانی سنور جائے۔ میں اسے کوئی جواب دئیے بغیر اس کے گھر سے اٹھ آیا۔