سٹی42: الیکشن2024 کا شیڈول اناؤنس ہوتے ہی پنجاب کی سیاست کے اصل مرکز ملتان مین سیاسی جوڑ توڑ عروج پر پہنچ گیا۔ سابق ایم پی اے واصف راں کی گیلانی ہاؤس ملتان میں یوسف رضا گیلانی سے رات گئے ملاقات ہوئی جس میں واصف راں کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے تمام جزیات طے ہو گئیں۔واصف راں کی شمولیت کاایک دو دن میں باضابطہ اعلان متوقع ہے۔
واصف مظہر راں نے مارچ 2019 میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی حیثیت سے پی پی 218 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے مشترکہ امیدوار ارشد راں کو دس ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔ 9 مئی کے پر تشددواقعات کے بعد وہ بانی پی ٹی آئی سے الگ ہو گئے تھے اور 2 جون کو انہوں نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا تھا۔
انتخابی سیاست کے سنجیدہ طالب علموں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات 2024ء میں جنوبی پنجاب کا اہم کردار ہو گا اور جنوبی پنجاب کی 25 اہم نشستوں پر سیاسی جوڑ توڑ اور انتخابی مہم کی اٹھان سے پورے جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب میں الیکشن 2024 کے نتائج کا تعین ہو گا۔
جنوبی پنجاب میں 25 سیٹوں پر بڑے انتخابی معرکے آزاد امیدواروں اور پیپلز پارٹی کے اہم الیکٹیبلز کے درمیان ہونےکا امکان اب ابھر کر سامنے آنے لگا ہے۔
2008ء میں پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب سے 24 ارکان منتخب کروانے کے بعد بڑی سہولت کے ساتھ وفاق میں حکومت بنائی تھی۔
2013ء میں مسلم لیگ نون نے جنوبی پنجاب سے 29 ممبران کی حمایت حاصل کرکے وفاق میں حکومت بنائی تھی۔ 2018ء میں تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب سے 27 ممبران کی حمایت سے وفاق میں حکومت بنائی تھی۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں تین مین سٹریم پارٹیوں کے ساتھ استحکام پاکستان پارٹی بھی اپنی پاکٹس بنا رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قد آور لیڈروں کے ساتھ آزاد امیدوار بھی خاموشی سے اپنا کام کر رہے ہیں۔ اب تک سامنے آنے والی جوڑ توڑ سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ تحریک انصاف کے سینئیر لیڈر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں گرفتاری سے تحریک انصاف جنوبی پنجاب میں سنگین بحران سے دوچار ہے۔ بظاہر اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی واضح نہیں۔ اس صورتحال میں ٹکٹ لینے والوں کو تو بعد میں پتہ چلے گا، ابھی تو یہ بھی واضح نہیں کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ کون بانٹے گا۔ مسلم لیگ نون کو ایک اور نوعیت کے بحران کا سامنا ہے جو پارٹی کی مرکزی ار ثانوی درجہ کی قیادت کی پانچ سال سے عوام سے دوری کے سبب پیدا ہوا اور بتدریج بڑھتا گیا۔ اب تک جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ نون کے بڑے بڑے رہنماؤں سمیت کسی بھی پارٹی لیڈر نے اپنے قریبی ترین سیاسی کارکنوں کے بھی اجلاس نہین کئے اور عوام سے رابطہ کی بھی کوئی سرگرم کوشش دکھائی نہیں دی۔ پیپلز پارٹی کے متعدد بڑے لیڈر دوسری دو بڑی جماعتوں کے برعکس زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنی الیکشن 2024 کی بساط پر مہرے آگے بڑھاتے نظر آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اس ضمن میں اپنی پرفارمنس سے زیادہ تحریک انصاف کی مرکزی، عثمان بزدار اور پرویز الہی کی حکومتوں کی جنوبی پنجاب سے لاتعلقی کا فائدہ ہو رہا ہے۔ اس منظر نامہ مین چونکا دینے والا فیکٹر جہانگیر ترین کی قیادت میں استحکام پاکستان پارٹی کا ابھرنا ہےئ۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر مسلم لیگ نون نے جنوبی پنجاب مین استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ وسیع تر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی تو یہ نئی پارٹی جنوبی پنجاب مین پرانے برج الٹ دینے کی حد تک جانے کی صلاحیت کے ساتھ سامنے آ سکتی ہے۔