سٹی 42:لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے جانے کی اجازت دے دی،جسٹس علی باقر نجفی نے محفوظ فیصلہ سنایا۔
تفصیلات کےمطابق شہباز شریف نے بیرون ملک جانے کیلئے اپنا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔جسٹس علی باقر نجفی نے درخواست کی سماعت کی۔ رجسٹرار آفس لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے لگائے گئے اعتراض میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے پہلے متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا۔جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ بلیک لسٹ میں نام شامل کرنے کا نوٹیفکیشن ساتھ نہیں لگایا جبکہ شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ بلیک لسٹ کا قانون ہمیں میسر نہیں ہے۔لاہور ہائیکورٹ نے رجسٹرار آفس کو کیس پر نمبر لگانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ نمبر لگنے کے بعد آفس اعتراض کا فیصلہ پٹیشن کے ساتھ کریں گے۔جسٹس علی باقر نجفی شہباز شریف کی درخواست پر عائد اعتراض پر سماعت کریں گے، درخواست میں وفاقی حکومت، وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔
دوران سماعت عدالت کی طًلبی پر شہباز شریف تقریباً دوپہر 2بجے عدالت میں پیش ہوئے اور بیان دیتے ہوئے کہا کہ مارچ 2020 میں برطانیہ سے آخری پرواز کے ذریعے بیمار ماں کو چھوڑ کر واپس آیا، وفاقی حکومت کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ کیا میں دہشتگردوں ہوں جو میرا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا۔ ہائیکورٹ میں علاج کے لئے بیرون ملک جانے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستانی شہری ہوں اور علاج کے لئے بیرون ملک جانا میرا حق ہے۔ان کا کہنا تھا میں کینسر کا مریض رہا ہوں، مجھے سال میں دو مرتبہ چیک اپ کروانا پڑتا ہے، مجھے جلاوطنی میں یہ مرض لاحق ہوا، مجھے امریکی ڈاکٹروں نے کہا کہ لندن میں اس کا علاج کروایا جائے، میں گزشتہ 15 سال سے علاج کروا رہا ہوں۔
فاضل جج نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل ہے یا نہیں، جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ابھی مجھے کنفرم نہیں ہوسکا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ جب ملزم کی ضمانت ہوچکی ہے، ٹرائل میں پیش ہو رہا ہے، ملزم اپوزیشن لیڈر اور تین بار وزیر اعلیٰ پنجاب رہے ہیں، کونسی گارنٹی چاہئے آپ لوگوں کو وہ بتا ئیں۔ سرکاری وکیل نے اپوزیشن لیڈر کی درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ لیگی رہنما منی لانڈرنگ کے مرکزی ملزم ہیں، باہر جانے سے عدالتی کارروائی متاثر ہوگی۔
سرکاری وکیل نے عدالت سے درخواست ضمانت عید کے بعد سماعت کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ تمام سرکاری ادارے اپنا اپنا ریکارڈ لے آئیں گے، جمعہ تھا جس کے باعث سٹاف جا چکا ہے۔جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا جسے بعد میں سنا دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں۔