سٹی42: کراچی سے پنجاب آنے والی ہزارہ ایکسپریس کو خوفناک حادثہ پیش آ گیا.
نواب شاہ میں سرہاڑی ریلوے سٹیشن کے قریب ہزارہ ایکسپریس کی10 بوگیاں پٹڑی سے اتر کر الٹ گئیں۔ حادثہ میں34 افراد کے جاں بحق ہونے اور درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ امدادی ٹیمیں جائے حادثہ کی طرف روانہ ہو گئی ہیں۔ قریبی آبادیوں کے لوگ سرہاڑی ریلوے اسٹیشن کے قریب ڈی ٹریک ہو جانے والی ٹرین کے ڈبوں سے مسافروں کو نکال رہے ہیں۔ نواب شاہ کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ تاہم امدادی ٹیمیں ابھی تک جائے حادثہ تک نہیں پہنچ پائیں اور مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو ٹرین کی بوگیوں سے نکال رہے ہیں۔
جاں بحق افراد کی تعداد
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے حادثہ کے بعد ابتدائی تحقیقات قوم کے سامنے لانے کے لئے لاہور میں ہنگامی نیوز کانفرنس کی ، خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ ہزارہ ایکسپریس کے حادثہ میں اب تک 15 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ بعد ازاں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ٹرین حادثہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 18 ہو چکی تھی جبکہ 60 سے زیادہ افراد زخمی تھے۔ شام 4 بجے حکام نے تصدیق کر دی کہ حادثہ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 22 ہو گئی ہے جبکہ 120 سے زائد زخمی ہیں۔ شام ساڑھے پانچ بجے ریسکیو حکام اور نواب شاہ میں ہسپتالوں کے زرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ہزارہ ایکسپریس حادثہ میں جں بحق ہونے والوں کی تعداد مزید بڑھ کر 28 ہو چکی ہے۔ڈی ایچ او سانگھڑ نے شام سات بجے بتایا کہ ہزارہ ایکسپریس حادثہ میں اب تک34 افراد جاں بحق اور 84 شدید زخمی ہوئے ہیں۔ 45 افراد کو نوابشاہ اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا ہے۔ زخمیوں میں سے 24 افراد شہداد پور میں ایڈمٹ ہیں جبکہ 15 افراد کوحیدرآباد لیاقت میڈیکل میں ایڈمٹ کیا گیا ہے۔ دسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر سانگھڑ نے بتایا کہ زخمیوں میں 40 افراد کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔
پاک فوج اور رینجرز کی جائے حادثہ پر فوری امدادی سرگرمیاں شروع
آرمی چیف کی طرف سے امدادی سرگرمیوں کیلئے پاک فوج اور رینجرز کو خصوصی ہدایات جاری کئے جانے کے کچھ ہی دیر بعد جائے حادثہ پر پاک فوج اور رینجرز کے امدادی دستے پہنچنا شروع ہو گئے۔ مزید دستوں کو حیدرآباد اور سکرنڈ سے طلب کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹر بھی ریسکیو کے لئے روانہ تاکہ ریسکیو ہیلی کوپٹرز سے جلد از جلد زخمیوں کی قیمتی جانوں کو بچایا جا سکے۔
پاک فوج اور رینجرز کے حکام جائے حادثہ پر اشیاءِ خوردونوش بھی لے کر پہنچ گئے۔ پاک فوج کے ریسکیو آپریشن کا سلسلہ آخری زخمی کی ہسپتال منتقلی اور جائے حادثہ پر پھنسے افراد کی بحالی تک جاری رہے گا۔
اطلاعات آ رہی ہیں کہ جائے حادثہ کے بڑی سڑک سے دور ہونے کے سبب آرمی ایوی ایشن سے بھی مدد طلب کر لی گئی ہے اور آرمی کے ہیلی کاپٹر بھی جائے حادثہ کی جانب روانہ کئے جا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ ٹرین حادثہ کی اطلاع ملنے کے بعد کمشنر اور ڈی آئی جی موقع پر پہنچ گئے ہیں۔
حادثہ یا تخریب کاری؟
ہزارہ ٹرین حادثہ کے فوری بعد عینی شاہدوں کا کہنا تھا کہ ٹرین کی بوگیاں زور دار دھماکہ سے پٹڑی سے اتریں۔ ابتدا میں بتایا جا رہا تھا کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ریلوے ٹریک کئی جگہوں پر کمزور ہو نے کی اطلاعات تھیں اور ریلوے ٹیمیں روزانہ بنیاد پر ریلوے ٹریک کی جانچ پڑتال اور مرمت میں پہلے سے مصروف تھیں۔ تاہم وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے لاہور میں نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ ہزارہ ایکسپریس کو پیش آنے والا حادثہ کوئی تخریب کاری بھی ہو سکتی ہے۔سعد رفیق کا کہنا تھا ٹرین کی رفتار مناسب تھی اور ٹرین جب حادثے کا شکار ہوئی تو 45 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی لیکن پہلے ریلیف اور پھر تحقیقات ہوں گی۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہمارے دو تین دن رہ گئے ہیں، ڈر تھا کہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے اور ایسا ہی ہوا، یہ تخریب کاری بھی ہوسکتی ہے اور لائن میں مکینیکل فالٹ بھی ہو سکتا ہے، تخریب کاری تھی یا فنی خرابی اس کا فیصلہ ایف جی آئی آر کرے گی۔
ٹرین کے ڈرائیور کا بیان
نوابشاہ کے قریب حادثہ کا شکار ہونے والی ٹرین ہزارہ ایکسپریس کے ڈرائیور راشد منہاس نے انکشاف کیا ہے کہ حادثہ میں ٹرین کا انجن اور عملہ محفوظ رہا،پچھلی بوگیاں ڈی ریل ہوکر اتریں۔ ڈرائیور راشد منہاس نے بتایا کہ حادثے کے مقام پر ٹریک بالکل ٹھیک تھا،ٹرین 50 کلو میٹر کی رفتار پر تھی۔ڈرائیور نے بتایا کہ جس جگہ حادثہ ہوا وہاں ٹریک پر حد رفتار 105 کلو میٹر فی گھنٹہ تک مقرر ہے۔ ڈرائیور نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہزارہ ایکسپریس کو پیش آنے والا حادثہ کسی تخریب کاری کے باعث ہوسکتا ہے۔ٹرین ڈرائیور راشد منہاس کا کہنا تھا کہجس طرح انجن اور ٹرین کو دھچکا لگا،اس سے تخریب کاری شبہ ہوتا ہے۔
مسافروں کی تعداد
ہزارہ ایکسپریس کراچی سے حویلیاں جا رہی تھھی اور اس کی تمام بوگیاں مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ٹرین میں مجموعی طور پر 19 بوگیاں تھیں،10 حادثے کا شکار ہوئیں۔ ابتدا میں حکام کا کہنا تھا کہ ٹرین میں ایک ہزار کے لگ بھگ افراد تھے اور جو پانچ بوگیاں ٹریک سے اتر کر الٹ گئیں ان میں کم و بیش پانچ سو مسافروں کے سوار ہونے کا اندازہ ہے۔
ریلوے آمدورفت بند
حادثہ کے باعث کراچی سے پنجاب ریلوے ٹریک دونوں اطراف سےآنے والی ٹرینوں کے لئے بند کر دیا گیا ہے اورر ٹریک پر موجود ٹرینیں نزدیکی ریلوے سٹیشنوں پر روک لی گئی ہیں۔
اس حوالے سے ڈی ایس ریلوے محمود الرحمان کا کہنا ہے کہ نواب شاہ کے قریب 10 بوگیوں کے پٹری سے اترنے کی اطلاعات ہیں، اس حوالے سے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔