چیئرمین نیب کے اختیارات کیخلاف درخواستوں پر سماعت

 چیئرمین نیب کے اختیارات کیخلاف درخواستوں پر سماعت
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ملک اشرف : لاہورہائیکورٹ میں چودھری برادران کی چیئرمین نیب کے اختیارات کیخلاف درخواستوں پر سماعت، ڈی جی نیب سلیم شہزاد عدالت پیش ، عدالت نے کیس سماعت 17 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ ڈی جی نیب شہزاد سلیم آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کیساتھ پیش ہوں۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے چودھری پرویز الہی اور چودھری شجاعت حسین کی درخواستوں پر سماعت کی ، ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد رپورٹ سمیت عدالت میں پیش ہوئے ۔سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی اور چودھری شجاعت حسین کی طرف دسے امجد پرویز ایڈووکیٹ کے پیش ہوئے ۔جسٹس صداقت علی خان نے ڈی جی نیب سے استفسار کیا کہ بتائیں۔ انکوائری میں اب تک کیا پیش رفت کی ۔ڈی جی نیب نے جواب دیا کہ دو ہزار سترہ میں تعینات ہونے کے بعد اس  انکوائری کا  اغاز کیا ۔٠جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ کس کے حکم پر یہ انکوائری کا آغاز کیا گیا، کس بورڈ نے کس تاریخ کو اس کی منظوری دی ۔

ڈی جی نیب نے جواب دیا کہ چیئرمین نیب کے حکم پر تمام زیر انکوائریوں کی ازسر نو تحقیات شروع کی گئیں ۔جسٹس شہرام سرور چوہدری نے استفسار کیا کہ 17 سال یہ انکوائری ایسا لگتا ہے جیسے یہ انکوائری سر خانے میں پڑی رہی، جسٹس صداقت علی خان نے ڈی جی نیب سے استفسار کیا کہ 19 اکتوبر 2017ء کو آپ نے ذاتی طور پر کیس شروع کیا؟ جسٹس صداقت علی خان نے ڈی جی نیب سے استفسارکیا چیئرمین نیب نے زیر التواء کیسز پر کام کرنے کا حکم دیا، ڈی جی نیب بولے 2015ء سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نجم عباس کے پاس یہ انکوائری زیر التواء تھی،27 جنوری 2017ء کو تفتیشی افسر نے ریجنل بورڈ میٹنگ میں انکوائری بند کرنے کی درخواست بھیجی، 27 جنوری 2017ء کو ہی ریجنل بورڈ نے چیئرمین کو معاملہ بھجوا دیا گیا۔

 دوران سماعت جسٹس صداقت علی خان کا نیب تفتیشی افسر کو تنبیہہ کی اگر آپ نے درمیان میں بولنے کی کوشش کی تو تفتیشی افسر اور ڈی جی نیب کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیں گے،  جسٹس صداقت علی خان نے ریمارکس دئیے کہ ایسا لگتا ہے یہ رپورٹ ڈی جی نے خود تیار نہیں کی اسی وجہ سے لقمے لے رہے ہیں، معلوم ہو رہا ہے ڈی جی نیب کسی کی تیار کی ہوئی رپورٹ پڑھ رہے ہیں،  ڈی جی نیب سلیم۔شہزاد نے کہا سر میں نے خود رپورٹ تیار کی ہے ابھی پڑھ کر بتائے دیتا ہوں، جب ریفرنس بند کرنے کی درخواست کی گئی تب میری تقرری نہیں ہوئی تھی، جسٹس صداقت علی خان نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے ریفرنس بند کرنے کی تاریخ غلط بتائی ہے، 16 دسمبر 2016ء میں تفتیشی افسر نے ریفرنس بند کرنے کی درخواست دی، ہم سمجھتے ہیں کہ ڈی جی آپ کی رائے کیساتھ یہاں آئے ہیں۔

جسٹس شہرام سرور چوہدری نے ریمارکس دئیے کہ  نجم تو اپنی رائے دے چکا ہے یہ کیسے دوبارہ کیس کی تحقیقات کر سکتا ہے؟ جسٹس صداقت علی خان نے کہا افسوس کی بات ہے کہ ڈی جی صاحب آپ تیاری کیساتھ نہیں آئے،  چوہدری برادران کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ  عدالت نیب کا20 برس پرانے آمدن سے زائد اثاثہ جات کی انکوائری دوبارہ کھولنے کا اقدام غیرقانونی قرار دینے کا حکم دے۔ 

Raja Sheroz Azhar

Article Writer