چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست  پر 29 اگست کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری

 چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست  پر 29 اگست کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

امانت گشکوری:  سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست  پر سپریم کورٹ نے 29 اگست کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ۔ 

8 صفحات کے حکمنامے میں جسٹس منصور علی شاہ کا 4 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہے ۔ اختلافی نوٹ  میں کہا گیا ہے کہ  چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع دیا گیا۔ اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا  جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیر التوا ہے اس کیس کی سماعت روک دی جائے۔ دوسری صورت میں کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔ملٹری کورٹس کیس میں بھی میرا موقف یہی تھا کہ فل کورٹ کیس سنے۔

آٹھ رکنی لارجر بنچ نے 13 اپریل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع دیا گیا ۔4 ماہ سے زائد گزرنے کے باوجود پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس مقرر نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فوری فیصلہ دیا جائے تاکہ عدالت قانون کے تحت کام کرسکے جبکہ سپریم کورٹ اس وقت حکم امتناع کی غیر یقینی صورتحال میں کام کر رہی ہے۔ 

https://www.city42.tv/digital_images/large/2023-09-01/news-1693576128-8544.jpg

https://www.city42.tv/digital_images/large/2023-09-01/news-1693576038-9449.jpg

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق فیصلہ نہایت اہم ہوگا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حق میں فیصلہ آیا تو نیب ترامیم کیس قانون کی نظر میں غیر موثر ہوجائے گا.ایکٹ پر فیصلہ نہ ہونے تک خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی.پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بننے کے بعد سپریم کورٹ رولز تبدیل ہوچکے ہیں.پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کو قانونی طریقے سے چلانے کیلئے ناگزیر ہے. 

حکمنامے کے مطابق  پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 8 رکنی بنچ نے 13 اپریل اور 2 مئی کے آرڈرز سے معطل کیا، حکومت کی جانب سے ان آرڈرز کو واپس لینے یا تبدیل کرنے کی درخواست نہیں کی گئی۔اس وقت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ معطل ہے۔50 سماعتیں ہونے کے بعد بنچ میں اس سطح پر تبدیلی ضروری نہیں۔نیب ترامیم کیس میں عوام کا پیسہ اور عدالتی وقت صرف ہوچکا ہے۔50 سماعتوں کے بعد بنچ تبدیل کرنا عوامی پیسے کا ضیاع ہوگا۔موجودہ تین رکنی خصوصی بنچ ہی نیب ترامیم کیس کی سماعت جاری رکھے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو سامنے رکھ کر بنچ پر اعتراض اٹھایا ۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے دو بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ میں انتظامی فیصلوں کیلئے چیف جسٹس سمیت سینیئر ججز کی کمیٹی بنائی گئی۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں دوسری اہم چیز نظرثانی کو اپیل کے برابر کیا گیا ہے ۔