ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

چھ ماہ معطلی کے بعد پی آئی اے کو یورپ کیلئے پروازوں کی اجازت

چھ ماہ معطلی کے بعد پی آئی اے کو یورپ کیلئے پروازوں کی اجازت
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42: قومی اسمبلی میں پائلٹوں کے جعلی لائسنسوں کے شور کے بعد یورپی یونین اور بر طانیہ نے پی آئی اے کی پروازوں پر چھ ماہ کیلئے پابندی عائد کردی ہے،حکومت پاکستان کی کاوشوں سے یورپین یونین نے پی آئی اے کو 3 جولائی تک آپریٹ کرنے کی اجازت دے دی۔

ترجمان پی آئی اے کے مطابق پی آئی اے کی یورپی ممالک میں پروازوں سے متعلق سیکرٹری خارجہ نے ہنگامی طور پر تمام یورپین ممالک کے سفیروں سے رابطہ کیا جس کے بعد پی آئی اے کو یکم تا تین جولائی برطانیہ اور یورپ اترنے اور اوور فلائینگ کی تا حکم ثانی اجازت دی گئی ہے۔تاہم پی آئی اے کی اسلام آباد تا لندن اور واپسی کی پروازیں پی کے 785 اور 786 معمول کے مطابق آپریٹ کریں گی جب کہ دیگر پروازیں کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

پی آئی اے انتظامیہ، وزارت خارجہ اور پاکستان کے سفیر مسلسل یورپین حکام سے رابطے میں ہیں۔اس قبل یورپین یونین ائیر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کی یورپین ممالک کیلئے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو 6 ماہ کیلئے معطل کیا گیا تھا۔معطلی کا اطلاق یکم جولائی 2020 رات 12 بجے یو ٹی سی ٹائم کے مطابق شروع ہونا تھا جس کے تحت پی آئی اے کی یورپ کی تمام پروازیں عارضی طور پر منسوخ کی گئی تھی۔دوسری جانب دوسری جانب اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی نے بھی اقوام متحدہ کے آپریشنز کیلئے پاکستان میں رجسٹرڈ طیارے چارٹر پر حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی ہے ۔


خیال رہے کہ گذشتہ دنوں وزارت ہوابازی نے 262 مشکوک پائلٹس کی فہرست جاری کی تھی، اس حوالے سے وفاقی وزیر غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ 148مشکوک لائسنس کی لسٹ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز ( پی آئی اے) کو بھجوادی گئی اور انہیں ہوابازی سے روک دیا گیا ہے،دیگر مشکوک لائسنس والے پائلٹس 100 سےزائد ہیں۔


گزشتہ روز ویتنام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی مشتبہ لائسنس کی اطلاعات منظر عام پر آنے کے بعد تمام پاکستانی پائلٹس گراؤنڈ کردیے تھے۔ویتنامی ایوی ایشن حکام کا کہنا ہے کہ ویتنام کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 27 پاکستانی پائلٹوں کو لائسنس دیا تھا، جن میں سے 12 کام کررہے تھے جبکہ 15 کے معاہدے ختم ہو چکے تھے یا وہ کورونا کے باعث کام نہیں کر رہے تھے۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer