ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

خلائی مخلوق بمقابلہ زمینی مخلوق

خلائی مخلوق بمقابلہ زمینی مخلوق
کیپشن: City42 - Qaiser Khokhar
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) آج کل چند سیاستدان خلائی مخلوق کا دبے لفظوں میں ذکر کرتے ہیں لیکن اس مخلوق کے بارے میں نہ تو سنا ہے اور نہ ہی دیکھا ہے لیکن ایک زمینی مخلوق ہے جو اس وقت حکومت پر چھائی ہوئی ہے اور ہر طرف نظربھی آ رہی ہے۔ اس زمینی مخلوق کا نام ہے ڈی ایم جی گروپ، گروپ کے افسران ہر جانب کلیدی اسامیوں پر تعینات ہیں۔ پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعظم، اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے سیکرٹریز، تمام وفاقی سیکرٹری، تمام وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے پی ایس او بھی یہی ڈی ایم جی افسران ہی ہیں جو کہ کسی بھی حکومت کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں۔

گورنر سٹیٹ بینک، رجسٹرار سپریم کورٹ بھی اس وقت ڈی ایم جی افسران ہی ہیں۔ ان ڈی ایم جی افسران کا فائلوں پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے ۔چاروں صوبوں کے چیئرمین پی اینڈ ڈی بھی ڈی ایم جی افسران ہیں۔ ان افسران کی آپس میں کوآرڈی نیشن بہت بہتر ہوتی ہے اور یہ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ یہی افسران پالیسی بناتے ہیں اور یہی قانون سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جتنی بھی پارلیمنٹ یا صوبے کی سطح پر کمیٹیاں بنتی ہیں ان میں ڈی ایم جی گروپ کے افسران ممبران ہوتے ہیں۔ انہی افسران نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو کمپنیاں بنانے کا مشورہ ددیا جس سے ایک تباہی ہوئی لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس ایکشن یا کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ پنجاب میں افسر شاہی کے بڑے پیمانے پر تقرر و تبادلے کر دیئے گئے ہیں لیکن صرف چہروں کو تبدیل کیا گیا ہے ۔ ایک سیکرٹری یا ایک ڈی سی کو ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ تعینات کر دیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت میں بھی سیکرٹریوں کا ایک ڈویژن سے تبدیل کر کے دوسرے ڈویژن میں تبدیل کرنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے ۔ وہی بیوروکریسی وہی وزارتیں اور وہی محکمے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حامی افسر شاہی کو چہرے بدل کر دوبارہ اہم عہدوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس زمینی مخلوق کا بین الصوبائی تبادلہ کیا جاتا ، سندھ کی انتظامیہ کو پنجاب اور پنجاب کی انتظامیہ کو کے پی کے اور بلوچستان بھیجا جاتا تاکہ ملکی سا لمیت پر بھی اچھا اثر پڑتا اور ان افسران کو ان کے  قلعہ سے اٹھا کر ان کی روٹیشن کی پالیسی پر بھی عمل ہوتا ۔ لیکن افسوس کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکا ہے ۔ ماسوائے چند افسران کو وفاق میں بھیجنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت میں جانے والے افسران کو ان کے صوبے کے مقابلے میں بھی بہتر تقرری مل رہی ہے۔ پنجاب میں سارے ڈی سی اور سارے کمشنر وہی ہیں جو مسلم لیگ ن کے حامی رہے ہیں۔ کیا یہ زمینی مخلوق ہر فن مولا ہیں کہ یہ ہر جگہ فٹ ہو جاتے ہیں اور ہر جگہ پر تعیناتی حاصل کر لیتے ہیں، پارلیمنٹ کے سیکرٹری بھی یہی ڈی ایم جی افسران ہیں۔ اس وقت پنجاب کی نگران حکومت بھی انہی ڈی ایم جی افسران پر تکیہ کئے ہوئے ہے۔ لاہور شہر کے ڈی سی ، کمشنر، تمام سبھی سیکرٹری، اور ایوان وزیر اعلیٰ میں بھی انہی افسران کا مکمل ہولڈ ہے۔ نگران حکومت کے بعد اگر وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی تو انہیں فوری طور پر اس افسر شاہی کی بین الصوبائی اکھاڑ پچھاڑ پر توجہ دینا ہو گی۔ ہر افسر کو لازمی طور پر دووسرے صوبے میں بھیجا جائے تاکہ اگر یہ افسران وفاقی سروس سٹرکچر کے تحت گریڈ 22 تک ترقی پاتے ہیں تو انہیں دوسرے صوبوں میں نوکری بھی کرنا چاہئے۔ پنجاب میں اس وقت خواتین افسران کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے ان تمام خواتین میں سے ماسوائے دو یا تین کے کسی نے بھی دوسرے صوبے میں نوکری نہیں کی ہے۔ یہ ترقی پاتے پاتے اس وقت سیکرٹری تک کے عہدوں تک پہنچ گئی ہیں لیکن وفاقی حکومت نے ان کی بین الصوبائی روٹیشن نہیں کرائی ہے۔ پنجاب میں تعینات خواتین سیکرٹریوں کی دوسرے صوبوں میں روٹیشن وقت کی ضرورت ہے۔

پنجاب میں تحصیل کی سطح سے لے کر پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور تک تمام پر اس زمینی مخلوق کا مکمل ہولڈ اور کنٹرول ہے پولیس کا محکمہ بھی انہوں نے اپنے نیچے لگا رکھا ہے۔ پنجاب کا ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم بھی ایک ڈی ایم جی افسر ہے حالانکہ یہ تمام کام محکمہ پولیس کا ہوتا ہے اس پر کسی پولیس افسر کو تعینات ہونا چاہئے تھا۔ اسی طرح وفاق میں وفاقی سیکرٹری داخلہ بھی ایک ڈی ایم جی افسر ہے۔

پنجاب میں گزشتہ پندہ سالوں سے آنے والے تمام وزرائے اعلیٰ اسی زمینی مخلوق کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے ہیں۔ تمام منصوبے ، تمام پالیسیاں اور تمام قانون سازی میں بھی اسی زمینی مخلوق کا حصہ ہوتا ہے ۔ تمام ان پٹ اور تمام آﺅٹ پٹ یہی زمینی مخلوق دیتی ہے۔ وفاقی حکومت کو دیگر گروپ کے افسران کو بھی آگے لانا چاہئے اور صوبائی سروس کے افسران کو بھی پروموٹ کرنا چاہئے ۔ پنجاب میں پی ایم ایس افسران بڑے ہی ہونہار اور فرض شناس ہیں جو برابر مقابلے کے امتحان کے تحت بھرتی ہو کر آئے ہیں، ان کی ٹریننگ بھی ڈی ایم جی کی طرز پر ہی ہے ۔

انہیں بھی حکومت کو سیکرٹری، کمشنر اور ڈی سی او کے لئے ان ڈی ایم جی افسران کے برابر شیئر دینا چایئے تاکہ ان کی حق تلفی دور ہو سکے۔ روزانہ پنجاب سول سیکرٹریٹ جانے کا موقع ملتا ہے کہیں بھی خلائی مخلوق کا وجود نظر نہیں آتا ہے لیکن اس زمینی مخلوق نے حکومت اور عوام کو مکمل طور پر اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ نگران حکومت اور خاص طور پر اگلی منتخب ہونے والی حکومت کو عوام کو اس زمینی مخلوق سے ریلیف دلاناچاہیے تاکہ عوام کو سکھ کا سانس مل سکے۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر