نیب سے خوفزدہ بیوروکریسی

نیب سے خوفزدہ بیوروکریسی
کیپشن: City42 - NAB, Qaiser Khokhar
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصرکھوکھر) پنجاب کی بیوروکریسی ایک عجب وسوسے کا شکار ہے کہ مختلف محکموں میں آنے والی فائلوں کو جان بوجھ کر روکا جا رہا ہے اور نیب کے خوف سے کئی فائلوں میں جان بوجھ کر نقائص نکالے جا رہے ہیں اور خاص طور پر مالی معاملات کی فائلوں پر اعتراضات لگا کر واپس کی جا رہی ہیں اور فائل پر منظوری دینے کی بجائے زبانی احکامات دیئے جا رہے ہیں ،تاکہ کہیں کل کلاں انہیں بھی نیب میں پیش نہ ہونا پڑے۔ نیب کے ہاتھوں فواد حسن فواد اور احد خان چیمہ کی گرفتاری کے بعد صورتحال یکسر بدل کر رہ گئی ہے۔

 انگریز کے زمانے کی بیوروکریسی نے برصغیر میں ترقی کی بنیاد رکھی اور ریلوے، نہری نظام، سڑکیں پل، ڈیم اور بیراج بنائے جس سے ملک کی ترقی کا ایک نیا باب کھل گیا اور اگر کہیں ان کاموں کے دوران اس وقت کی افسر شاہی سے کبھی کوئی غلطی سرزد ہو بھی جاتی تو اس کی سزا بیوروکریسی کو نہ دی جاتی تھی بلکہ ایک ایک سرکاری غلطی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بیوروکریسی نے اپنے کردار میں اضافہ کیا اور ملک کے انتظامی معاملات کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی معاملات میں بھی مداخلت کرنا شروع کر دی۔ سیاستدانوں کے ساتھ مل کر مختلف منصوبوں میں کک بیکس لینا شروع کر دیں اور کرپشن میں سیاستدانوں کا حصہ دار بننا شروع کر دیا۔

 مشرف دور میں صورتحال کچھ یوں بنی کہ کرپشن کی روک تھام کے لئے نیب کے نام سے ایک نیا ادارہ بنایا گیا جس میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ افسر شاہی کا بھی آڈٹ کیا گیا اور کئی ایک بیوروکریٹس کو گرفتار کرکے ان کا ٹرائل کیا گیا ۔

نیب بننے کے بعد سیاستدان چوکنا ہو گئے اور سیاستدانوں، وزراءاور وزرائے اعلیٰ نے بیوروکریسی کو تحریری احکامات کی بجائے زبانی احکامات دینے شروع کر دیئے ہیں اور ایوان وزیر اعلی نے ترقیاتی منصوبوں کو ڈیل کرنے کے لئے ایک الگ سے سیکرٹری رینک کا افسر تعینات کر دیا جو محکمہ سی اینڈ ڈبلیو، ایل ڈی اے، محکمہ آبپاشی، محکمہ ہاﺅسنگ کے تمام ٹھیکوں اور منصوبوں کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے زبانی منظوری حاصل کر کے ان محکموں کے سیکرٹریوں کو جاری کرنے لگا کہ وزیر اعلیٰ کا حکم ہے کہ فلاں کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا جائے اور فلاں کمپنی کو ٹھیکہ نہ دیا جائے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری ایام میں نیب نے سب سے پہلا مضبوط ہاتھ احد خان چیمہ پر ڈالا اور انہیں گرفتار کر لیا اور اس کی بنائی گئی پراپرٹی اور بینک اکاﺅنٹ کی تفصیلات حاصل کر لی گئیں اور ان انکشافات کی بنا پر سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بھی گرفتار کیا گیا ہے

 بعد ازاں فواد حسن فواد کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان دو بڑی گرفتاریوں کے بعد سے پنجاب کی افسر شاہی افسردہ ہو کر رہ گئی ہے اور افسر شاہی نے مالی معاملات والے محکموں میں اپنی تقرری حاصل نہ کرنے کی پالیسی شروع کر دی ہے اور محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کو کئی افسران نے درخواست کی ہے کہ انہیں کسی ایسے محکمہ میں تعینات کیا جائے جہاں پر مالی معاملات کم سے کم ملوث ہوں تاکہ انہیں کل کلاں کسی انکوائری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پنجاب کی کمپنیوں سے تبدیل ہو کر واپس آنے والے افسران نے بھی کھڈے لائن کی تقرریاں لینا شروع کر دی ہیں ۔ کئی ایک افسران نے نیب کے اکاﺅنٹ میں تنخواہ سے زائد وصول کی گئی رقم واپس بھی کرنا شروع کر دی ہے۔

 اگر کوئی افسر ایوان وزیر اعلیٰ میں بیٹھ کر کسی محکمہ کو زبانی حکم دیتا ہے تو اس محکمے کا سیکرٹری فوری یہ مطالبہ کرتا ہے کہ لکھ کر بھیج دیا جائے تووہ یہ کام کر دیں گے، زبانی نہیں ہو سکتا ۔ بیوروکریسی کے اس خوفزدگی کی وجہ سے ایک عام آدمی پس رہا ہے اور محکموں میں جو کام روزانہ ہونے چاہئیں وہ کئی کئی روز میں ہو رہے ہیں ۔ ہر فائل پر جیوری اور کمیٹی بنانے کا رواج عام سا ہو گیا ہے۔ افسر شاہی ایک عام نوعیت کا کام کرنے سے پہلے کئی بار سوچتی ہے کہ کہیں اس کے بدلے انہیں نیب کے سامنے نہ جانا پڑ جائے۔

ایسی غیر یقینی صورتحال سے بیوروکریسی کو اگر نہ نکالا گیا تو معاملات بگڑ سکتے ہیں جس سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوگا اور ایک دن میں ہی ہونے والاکام ہفتوں کی تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو اس معاملے کی سنگینی کااحساس کرنا چاہیے اور بیوروکریسی کو اس خوف کی فضا سے باہر نکالنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ افسران بلاخوف وخطر عوام کے کام کریں۔افسران کو فری ہینڈدیا جائے اور میرٹ کو ترجیح دی جائے ،حکومت خود بھی میرٹ کی پاسداری کرے اور بیوروکریسی کوبھی اس کی ہدایت کرے۔ میرٹ کی بالادستی ہی مسائل کاحل اورحکومت کی کامیابی کی ضامن ہوسکتی ہے۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر