ویب ڈیسک: سیشن کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ میں اضافے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت پھیلانے سے متعلق کیس میں اسلام آباد پولیس نے فواد چوہدری کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونےکا فیصلہ چیلنج کیا۔سیشن جج طاہر محمود خان نے اسلام آباد پولیس کی اپیل پر سماعت کے دوران استفسار کیا کہ دو دن کے جسمانی ریمانڈ میں کیا تفتیش کی۔پراسیکیوٹر نے بتایا کہ دو دن کا جسمانی ریمانڈ ملا مگرعملی طور پر ایک دن کا جسمانی ریمانڈ ملا، فواد چوہدری کا فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ کرانا ہے، فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ لاہور میں پنجاب فارنزک لیب میں ہونا ہے۔جج نے ریمارکس دیے کہ فواد چوہدری کے وکلا کو نوٹس کی تعمیل ہو جائے پھر دلائل سنیں گے۔
بعدازاں عدالت نے پولیس کی اپیل پر فواد چوہدری کو ساڑھے 12 بجے تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ فاضل جج کا کہنا تھا جسمانی ریمانڈ کے لیے ملزم کا عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے۔
وفقے کے بعد ساڑھے 12 بجے کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو تفتیشی افسر کی جانب سے فواد چوہدری کے خلاف مقدمے کا متن پڑھ کر سنایا گیا۔سرکاری وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ فواد چوہدری کا 2 روز کا جسمانی ریمانڈ ملا لیکن فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کرانا ہے، فواد چوہدری کی ویڈیو لی تاکہ فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کرایا جائے، فواد چوہدری کو فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کے لیے لاہور ساتھ لےکرجانا ضروری ہے، موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز کے ذریعے دیکھنا ہے کہ فواد چوہدری کے بیان کے پیچھے کون ہے۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا رات 12 بجے جسمانی ریمانڈ کا آرڈر دیا گیا، صرف ایک دن تفتیش کے لیے ملا، جسمانی ریمانڈ میں صرف وائس میچ کیا گیا، فواد چوہدری کی ایف آئی اے سے وائس میچ کرا لی ہے، فواد چوہدری سے الیکٹرک ڈیوائسز بھی برآمد کرنی ہیں۔
فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان الیکشن کمیشن کے وکیل کے روسٹرم پر آنے پر برہم ہو گئے اور دوران سماعت وکیل الیکشن کمیشن اور بابر اعوان کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔بابر اعوان کا کہنا تھا غیر ضروری طور پر سماعت کے دوران مداخلت نہ کریں، یہ الیکشن کمیشن نہیں، یہ عدالت ہے۔
سرکاری وکیل کا کہنا تھا تفتیشی افسر نے مزید 7 روزکے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی ہے، جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے میں فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کا ذکر نہیں، تفتیشی افسر کو فواد چوہدری کا فوٹوگرامیٹری ٹیسٹ ہی درکار ہے۔
فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا فواد چوہدری کو کوئی نوٹس نہیں ملا، عدالت نے ساڑھے 12 بجے فواد چوہدری کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ایک بج چکا ہے اور فواد چوہدری کو ابھی تک پیش نہیں کیا گیا۔بابر اعوان کا کہنا تھا فواد چوہدری کے بیان میں الیکشن کمیشن کا ذکر کہاں ہے؟ کہاں لکھا ہےکہ فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کو دھمکی دی؟ بیان کے مطابق فواد چوہدری پر جرم بنتا کہاں پرہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کا سیکرٹری انفرادی طور پر الیکشن کمیشن نہیں، الیکشن کمیشن کا کام صرف شفاف انتخابات کرانا ہے، عدالت میں الیکشن کمیشن کا کوئی ایسا فرد موجود نہیں جس کو دھمکی دی گئی ہو، الیکشن کمیشن اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہیں کروا سکا، الیکشن کمیشن بھاگا ہوا ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے جو قوم نے کرنا ہے کرلے، الیکشن کمیشن عدالت کے سامنے پیش کیوں نہیں ہوتا؟
بابر اعوان کا کہنا تھا فواد چوہدری کی تقریر سے کیا ملک ٹوٹ جائے گا؟ مذاق بنایا جا رہا ہے، فواد چوہدری نے ایسا کیا کہہ دیا جس سے سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہو گیا؟ پارلیمنٹ میں ایک خاتون رکن کو ٹریکٹر ٹرالی کہا گیا، کوئی پرچہ نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی کے وکیل کا مزید کہنا تھا عدالت سے استدعا کرتے ہیں کہ فواد چوہدری کو کیس سے ڈسچارج کیا جائے، ایسا لگتا ہے پی ڈی ایم کا پاکستان سے تعلق نہیں، پی ڈی ایم عمران خان کو ہٹانے کا کھل کر کہہ رہی ہے، شرم آتی ہے جس طرح پی ڈی ایم ملک پر حکومت کر رہی ہے، الیکشن کمیشن حکومت کا منشی بن چکا ہے۔
سیشن کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ میں اضافے سے متعلق درخواست فیصلہ محفوظ کر لیا۔یاد رہے کہ گزشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ وقاض احمد راجا نے فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا تھا۔سیشن جج طاہر محمود خان نے پولیس کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔