فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائلز کیخلاف درخواستیں، عدالتی بینچ ٹوٹ گیا

فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائلز کیخلاف درخواستیں، عدالتی بینچ ٹوٹ گیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

مانیٹرنگ ڈیسک:سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر بنایا گیا نو رکنی بینچ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق کے علیحدہ ہونے سے ٹوٹ گیا، فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہوتا میں اس بنچ کو کورٹ ہی نہیں مانتا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائلز کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔لارجر بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ،  سینیئر وکیل اعتزاز  احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان  نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے، عدالت کو  اختیار سماعت آئین کا  آرٹیکل 175/2 دیتا ہے، میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا، تعجب ہوا کہ کل رات8 بجے کازلسٹ میں میرا نام آیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر کوئی بات نہیں کروں گا۔

 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے9  رکنی بینچ  نےحکم امتناع دیا، سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی، سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا  ہےکہ آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کروں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے،میں  سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل میں بینچ کا حصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بینچ میں سماعت کے لیے مقرر ہوا، میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل184/3 میں رولزبنائے جائیں، اس کے بعد  تعجب دکھ اور صدمہ ہوا کہ 31 مارچ کو عشرت علی صاحب نے  سرکلر جاری کیا، عشرت علی صاحب نے 31 مارچ کے سرکلرمیں کہا کہ سپریم کورٹ کے 15 مارچ کے حکم کو نظر انداز کریں، یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلےکی؟ پھرسپریم کورٹ نے6 ممبر بینچ  بنا کر سرکلر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا، میرے دوست یقیناً مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا  اس 6 ممبر بینچ میں اگر نظرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ میں نے 6 ممبر بینچ پر نوٹ تحریرکیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنےکے بعد ہٹادیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو  پوچھا کہ کیا میں چیمبر  ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں؟ بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر  ورک کو ترجیح کیوں دی، ایک قانون بنادیا گیا بینچز کی تشکیل سے متعلق،  کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ  حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پربینچ میں بیٹھوں، میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جاسکتا ہے معطل نہیں کیا جاسکتا،  مجھ سے جب چیمبر ورک کے بارے میں دریافت کیا  گیا تو میں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا۔

نامزد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں اس لیے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں، میں نے چیف جسٹس کو  لکھا کہ  نوٹ اپنے  تمام کولیگز کو  بھی بھیجا،  میں نے نوٹ  میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کرکے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کسی فیصلے پر رائے نہیں دے رہا، 4 درخواستیں دائر کی گئیں، چیئرمین پی ٹی آئی کی پہلی درخواست تھی جس پر اعتراض لگا، میں آج اس بینچ سے علیحدہ ہورہا ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہوتا میں اس بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، میں اس بنچ کو کورٹ ہی نہیں مانتا، اس وقت تک بننے والا ہر بینچ غیرقانونی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری رائے کو یہ نہ سمجھا جائے کہ میں نے کیس سننے سے انکار کر دیا، میرا موقف ہے کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کیا جائے۔

قاضی فائز عیسی کے بنچ سے علیحدہ ہونے کے بعد جسٹس طارق نے بھی ان سے اتفاق کیا اور بنچ سے علیحدہ ہوگئے۔ جسٹس طارق نے کہا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب سے اتفاق کرتا ہوں، اگر کل قانون درست قرار دے دیا گیا تو پھر اپیل کا کیا ہوگا؟

دو ججز کے علیحدہ ہونے سے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔

ججز کے علیحدہ ہونے پر بنچ اٹھنے لگا جس پر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ  لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، چیف جسٹس صاحب اور دیگر ججز سے گزارش ہے بیٹھے رہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی اس معاملے کا کچھ کرتے ہیں، یہ کہہ پر تمام ججز چلے گئے۔

وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ گھر کا تنازعہ ہے جبکہ باہر سے لوگ حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتزاز احسن سے کہا کہ اعتزاز احسن صاحب پلیز! میں آپ کا احترام کرتا ہوں، مہربانی فرما کر سپریم کورٹ کو گھر نہ کہیں، یہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے گھر نہیں۔

ججز کے علیحدہ ہونے پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے دونوں معزز جج صاحبان کا مکمل احترام ہے، میرے دل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود سمیت تمام ججز کے لیے عزت و احترام ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ خیر کرے گا انشاءاللہ ، دعا ہے جو بھی فیصلہ آئے حق اور انصاف کے مطابق ہو، دعا ہے جو بھی فیصلہ آئے وہ لوگوں کیلئے بہتر ہو، ہم اسے دیکھتے ہیں۔