نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی کون ہیں ؟

Who is Mohsin Naqvi?
کیپشن: Sayyed Mohsin Raza Naqvi, File Photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

عامر رضا خان: نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن رضا نقوی کون ہیں ؟پی ٹی آئی کو اس نام سے تکلیف کے پیچھے چھپی اصل وجہ سامنے آ گئی۔

  محسن نقوی کا نام نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے کہاں سے آیا اور پاکستان تحریک انصاف کو اس نام سے کیوں اتنی تکلیف ہے ؟ یہ ہیں وہ سوال جو گزرے چند دنوں میں پاکستان کے سیاسی ، سوشل میڈیا اور عوام میں گردش کر رہے ہیں ، اس کا جواب میں دئیے دیتا ہوں ۔

 سید محسن رضا نقوی 1978 میں لاہور میں پیدا ہوئے آبائی تعلق جھنگ سے ہے سید گھرانے کے اس چشم و چراغ نے اپنی ابتدائی تعلیم کریسنٹ ماڈل سکول لاہور سے حاصل کی سکول کے دوست رضا راشد کا کہنا ہے کہ " محسن نقوی اپنے بچپن میں ہی سب کو ساتھ لیکر چلنے کے عادی تھے کوئی شرارت ہو یا پڑھائی وہ ہمیشہ دوستوں کےساتھ ہوتے ذہانت تھی تبھی تو ساتھی طالبعلم انہی سے نوٹس لیتے تھے "

محسن نقوی کی ان عادات کی ایک وجہ اُن کی اپنے ماموں سید افضل نقوی سے محبت اور تربیت بھی تھی جو ماڈل ٹاون لاہور میں اُن کے ساتھ قیام نے محسن نقوی نے جو سب سے بڑا سبق سیکھا وہ انسانیت کا تھا جو کسی رنگ ونسل مذہب و فرقہ اور طبقاتی تفرق کے بغیر ایک انسان کے دوسرے سے حسن سلوک کو اپنی عادت کا حصہ بنا لیا ۔

کریسنٹ ماڈل سکول سے فراغت کے بعد سید محسن نقوی نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور یہیں سے گریجوئشن کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ کی ریاست میامی کی اہائیو یونیورسٹی میں چلے گئے جہاں انہوں نے صحافت میں نہ صرف ڈگری مکمل کی بلکہ دوران تعلیم ہی دنیا کے سب سے بڑے اور مقبول نیوز ادارے سی این این میں اینٹرن شپ کی ، دوران اینٹرن شپ ہی سی این این انتظامیہ نے مخنت لگن اور ٹیلنٹ کو دیکھتے ہوئے جاب آفر کی اور یوں وہ ایک بڑے ادارے کے پلیٹ فارم سے عملی زندگی میں داخل ہوئے ، اپنی جاب کے دوران انہیں بطور سنیئر پروڈیوسر ساوتھ ایشیا اور پھر ریجنل ہیڈ بنا دیا گیا ۔

اپنی صحافت کے دوران انہوں نے افغان وار کی دلیرانہ کوریج کی اور اپنے ادارے سے تعریفی سرٹفیکیٹ بھی حاصل کیا اور ترقی بھی سال جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان مہم کے لیے پاکستان آرہی تھیں تو سی این این کی جانب سے سید محسن نقوی نے ہی وہ آخری انٹرویو کیا جس میں محترمہ نے پاکستان میں اُن کی جان کو لاحق خطرات کا ذکر کیا یہ انٹرویو تہلکہ خیز رہا ۔

دوران ملازمت ہی سید محسن نقوی نے پاکستان میں میڈیا کی روائتی انداز صحافت کو للکارنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ سٹی جرنلزم کا آغاز کیا اور سٹی نیوز نیٹ ورک کے نام سے 2008 میں صرف تیس سال کی عمر میں بنیاد رکھی ، یہ ایک نئی طرز صحافت تھی لاہور کے ٹیلی فون کوڈ 042 سے’’ فورٹی ٹو ‘‘کے نام سے نیوز چینل کا آغاز کیا قومی سطح کی صحافت کے دلدادہ شہریوں کے لیے صحافت کی یہ جہت اجنبی سی تھی جس میں صرف ایک شہر کی خبریں تھی نہ اسلام آباد کا شور نہ کراچی کا احوال یہ چینل اور اس کا سی ای او سید محسن نقوی نا مساعدحالات میں بھی اپنے سلوگن" شہر کی سب باتیں " پرڈٹے رہے۔

سید محسن نقوی کی شادی سیاست کے ایک بڑے چودھری ظہور الہیٰ خاندان میں ہوئی ان کی اہلیہ ڈاکٹر ہیں جو پنجاب پولیس کے بہادر سپوت شہید اشرف مارتھ کی صاحبزادی ہیں اور ان کے بطن سے اللہ پاک نے سید محسن نقوی کو تین بیٹیاں اور ایک بیٹا عطاء فرمائے ۔

سٹی نیوز نیٹ ورک کے حوالےسے ایک دلچسپ واقعہ پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے روہی چینل کی لانچنگ پر سنایا  جو کچھ یوں ہے کہ 

"جب محسن نقوی سٹی فورٹی ٹو کا آغاز کرنے لگے تھے تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک ایسا چینل لا رہے ہیں جو صرف شہر کی خبریں دے گا جس پر میں نے محسن سے کہا کہ کیا اس میں اشتہار دہی بھلے والا اور لڈو بیچنے والا دے گا لیکن اس کی مخنت کا اللہ نے بھرپور صلہ دیا " 

سٹی فورٹی ٹو میں میری اپنی آمد اس کے آن ائیر ہونے سے پہلے ہی ہوگئی اور یہ وہ دن تھے جب شہر کے صحافی بھی اس نئے چینل اور اس کی طرز صحافت کو قبول نہیں کر رہے تھے انہوں نے اس چینل کو "چک 42" کا نام دیا لیکن سید محسن نقوی نے اس طنز کو بھی اپنی طاقت میں تبدیل کیا اور ایسی ٹیم تشکیل دی کہ جس نے سب کو اس چینل کی جانب توجہ مبذول کرنے پر مجبور کردیا ، شہر کی سب باتوں کے سلوگن نے اسے شہر میں اس قدر مقبول بنادیا کہ وہ وقت آگیا جب اس ادارے ، کارکنان اور چیف ایگزیکٹیو کو کبھی پھر پیچھے دیکھنے کو مجبور نہیں کیا ، صحافتی کامیابیوں کا سفر پھر رکا نہیں سٹی نیوز نیٹ ورک نے ایک کے بعد ایک چینلز کا اجراء کیا جن میں قومی خبروں کے لیے 24 نیوز ڈیجیٹل ، فیصل آباد کے لیے سٹی41 ، جنوبی پنجاب کے لیے "روہی ٹی وی " کراچی کے لیے "سٹی 21" اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے "یو کے 44" نامی چینلز بنائے اسی ادارے نے ایک مقامی روزنامے " ڈیلی سٹی 42" کا بھی اجرا لاہور سے کیا ، آج سٹی نیوز نیٹ ورک پاکستان کا سب سے بڑا نیوز نیٹ ورک بن گیا اور سید محسن رضا نقوی میڈیا اندسٹری کا بڑا نام ۔

سید محسن رضا نقوی ٹیم مین کے طور پر ابھرے اُن کی بنائی ٹیم میں تجربے اور نوجوانی کے جذبے کا ایسا امتزاج تھا جس نے اس ٹیم کو باقی اداروں سے الگ شناخت دے دی خود چیف ایگزیکٹیو نے دفتر کے ماحول کو ایسا دوستانہ ٹچ دیا کہ گیٹ پر کھڑے محافظ سے لیکر ڈائریکٹر نیوز تک کے تمام کارکن اس چینل کے مالک سے ہر وقت مل سکتے ہیں ،ایسا دوستانہ ماحول اور مالک کی شفقت میسر ہو تو کون ہے جو چھوڑ کر جانا چاہے گا ، سید محسن رضا نقوی نے صرف صحافت کو ہی نئی جہت نہیں دی بلکہ کارکن صحافیوں کے لیے ویلفیئر اور تعریف و توصیف کی بھی نئی روایات کو جنم دیا اور میڈیا انڈسٹری میں پہلی مرتبہ ایوارڈ شو کا باقائدہ آغاز کیا جس میں سٹی نیوز نیٹ ورک کے  کارکنان کو ہر شعبے میں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر ایوارڈ بمعہ نقد رقوم دیا جانے لگا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ، ادارے نے ہیلتھ انشورنس اور رسک انشورنس کا بھی اہتمام کیا اور سب سے بڑھ کر ہر دوسرے سال اُن تمام کارکنان کو کہ جنہیں سٹی نیوز نیٹ ورک میں کام کرتے 5 سال یا اس سے زائد کا عرصہ گزرا اُن کے لیے حجاز مقدس میں عمرے کا اہتمام بلا معاوضہ کیا اس مقدس سفر میں ادارے کے مالک محسن نقوی ایک کارکن اور عمرہ کرنے والے وی آئی پی کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں ،اُن کی حجاز مقدس اور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جاسکتا ہے کہ وہ دو بار روضہ رسول اور ایک بار خانہ کعبہ کے اندر عبادات و نوافل کی سعادت بھی رکھتے ہیں ، محبتوں کا یہ سلسہ صرف اپنے ساتھ کارکنان کے لیے ہی روا نہیں رکھا جاتا بلکہ ہر رمضان المبارک پر ہزاروں روزہ داروں کی روزانہ کی بنیاد پر روزا کشائی بھی کرائی جاتی ہے جس میں بلا تمیز عہدہ و رتبہ سی ای او سے لیکر تمام کارکنان اپنے اپنے طور پر ایک ٹیم کیطرح کام کرتے ہیں ۔

سید محسن نقوی کا نام نگران وزیر اعلیٰ کے لیے آیا تو یہ بھی کوئی اچنبے کی بات نہ تھی وہ سیاسی حلقوں میں یکساں مقبول اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں جس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سی این این میں دورانِ ملازمت اُنہوں نے تمام سیاستدانوں سے اچھے روابط بنائے جو تاحال موجود ہیں ، اُن کا نام گو پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر آیا لیکن اس میں کسی نہ کسی صورت تمام سیاسی جماعتوں کی رضا مندی شامل رہی ، آج جب اُن کا نام بطور وزیر اعلیٰ پنجاب پکارا جا چکا ہے تو وہ ایک ایسی قابل قبول شخصیت کے طور ابھرے ہیں جو صوبے کے انتظامی امور کو ناصرف بہتر انداز سے چلا سکتے ہیں بلکہ فری اینڈ فیئر انتخابات کی صورت صحیح  نمائندگی پر مشتمل حکومت دے سکتے ہیں ۔

Abdullah Nadeem

کنٹینٹ رائٹر