رانی پور ؛ ملازمہ بچی کا پوسٹمارٹم، دل ہلا دینے والے حقائق سامنے آ گئے

Ranipur torture case, City42
کیپشن: Screen Capture
سورس: twitter
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: سندھ کے علاقہ رانی پور میں کمسن ملازمہ کی مبینہ تشدد سے وفات کے اسکینڈل کی تحقیقات میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔

نوشہرو فیروز سول ہسپتال کے ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل بورڈ نے قبرکشائی کے بعد بچی کی لاش کے پوسٹ مارٹم،طبی معائنہ،اجزا لینے کا عمل مکمل کرلیا۔

ذمہ دار ذرائع کے مطابق میڈیکل بورڈ کو پوسٹ مارٹم کے دوران بچی کی لاش پر تشدد کے نشانات ملے ہیں، مقتولہ بچی کے گلے  پیٹ اور بازوئوں پر تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں۔

بچی کی لاش سے لئے گئے اجزا ٹیسٹ کیلئے لیبارٹری بھیجے جائیں گے۔لیبارٹری سے اجزا کی رپورٹ ایک ہفتے سے ایک ماہ کے درمیان موصول ہوگی۔

ضلع خیرپور کی تحصیل رانی پور میں ایک مفلوک الحال گھرانے کی 10 سالہ بچی فاطمہ رانی پور کے وائس چیئرمین فیاض شاہ کے داماد اسد شاہ کے گھر میں کام کرتی تھی، اسد شاہ نے فاطمہ کے گھر والوں کو کال کرکے بتایا کہ "فاطمہ کچھ دن سے بیمار تھی اور آج فوت ہوگئی۔ بعد ازاں اس واقعہ کے متعلق سوشل میڈیا میں بحث چھڑ گئی، کچھ مواد سامنے آنے سے پتہ چلا کہ بچی کی موت تشدد کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ اس دوران بچی کے والدین یہ کہتے رہے کہ ان کی بچی طبعی موت فوت ہو ئی ہے اور اس کی وفات میں پیر اسد شاہ کا کوئی عمل دخل نہیں۔ سوشل میڈیا پر مسلسل تنقید کے بعد سندھ پولیس نے نہ صرف پیر اسد شاہ کو گرفتار کر لیا بلکہ اس بچی کی لاش کا پوسٹمارٹم کروانے کے لئے میجسٹریٹ سے احکامات حاصل کر کے آج قبر کشائی اور پوسٹمارٹم کا مرحلہ بھی مکمل کر لیا۔ اب تک تحقیقات سے یہ عیاں ہو گیا ہے کہ بچی کو پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جب اس کی جسمانی حالت خراب ہوئی تو اس کے علاج کی کوشش کی گئی۔

اس دوران بعض زرائع کے مطابق اسے مار کر اس کے ساتھ کئے گئے تشدد پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ 

تحقیقات سے واقفیت رکھنے والےزرائع کا کہنا ہے کہ بچی کی دفات کے اصل عوامل کا حتمی تعین اس کے جسم کے اجزا کے کیمیائی تجزیہ سے ہو سکے گا جس کے لئے کئی ہفتے انتظار کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ شہریوں کے شدید احتجاج کے بعد رانی پور میں 10 سالہ ملازمہ تشدد کیس میں پیر اسد شاہ کی گرفتاری کے بعد، اس کیس میں لاپرواہی برتنے والے SHO اور ڈاکٹر کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ڈاکٹر نے ملزم کی سپورٹ کرتے ہوئے بچی کی موت کو بیماری قرار دیا تھا اور میڈیکل ایگزیمینیشن اور پوسٹ مارٹم نہیں کرایا تھا جس کے سبب بچی کی قبر کشائی کر کے تاخیر سے پوسٹمارٹم کروانا پڑا.آج عدالت سے قبر کشائی کی اجازت لے کر پوسٹ مارٹم کیا  جا چکا ہے اور مقدمے میں قتل اور تشدد کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

کمسن بچی فاطمہ کے پوسٹمارٹم کے دوران لی گئی فوٹو گراف: