ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

قصور کی ننھی زینب سمیت 8 بچیوں کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا

قصور کی ننھی زینب سمیت 8 بچیوں کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(سٹی 42) قصور کی ننھی زینب کو انصاف مل گیا، سیریل کلر عمران علی کو کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دیدی گئی۔ پھانسی کے بعد قاتل کی نعش ورثا کے حوالے کردی گئی۔

تفصیلات کے مطابق قصور کی ننھی زینب سمیت دیگر بچیوں  کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے والا سفاک مجرم عمران علی اپنے انجام کو پہنچ گیا، ننھی کلیوں کی زندگیوں سے کھیلنے والےمجرم کو کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دیدی گئی۔ اس موقع پر سپرنٹنڈنٹ جیل، مجسٹریٹ، ایگزیکٹوسٹاف، میڈیکل افسران، ننھی زینب کے والد محمد امین، 2 چچا اور ایک ماموں بھی موجود تھے۔ سفاک قاتل کی لاش آدھا گھنٹہ تختہ دار پر جھولتی رہی, ڈاکٹرز کی جانب سے موت کی تصدیق کیے جانے کے بعد سفاک قاتل کی نعش ورثا کے حوالے کردی گئی ۔

پھانسی کے بعد مقتولہ زینب کے والد امین انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجرم عمران کو پھانسی معمولی سزا ہے، ہمیں انصاف مل گیا، اگر سرعام پھانسی دی جاتی تو مجرم عبرت کا نشان بن جاتا۔

دوسری جانب مجرم نے موت سے پہلے اپنی آخری خواہش میں اپنے گناہوں کی معافی مانگی  اور کہا کہ اسکے گھر والوں سے انکا ذاتی گھر نہ چھینا جائے، اور نہ ہی انہیں تنگ کیا جائے.اس نے اپنے گھر والوں سے کہاکہ میں اپنے کیے کی معافی مانگتا ہوں ۔ خاص طور پر اپنے بھائیوں اور شہریوں سے التجا کروں گا کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس پر بعد میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے ۔میں نے جو کچھ کیا اس پر شرمندہ ہوں۔اگر زندگی وفا کرتی تو میں ضرور اپنے اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ۔ گھروالے میری بخشش کیلئے دعاکرتے رہیں۔شاید یہ دعامیرے گناہوں کا کفارہ بن جائے ۔

یادرہے کہ کل پھانسی سے پہلےسنگین جرم کے مرتکب شخص سے اس کےا ہلخانہ کی ملاقات کرائی گئی۔ خاندان کے28 افراد نے سخت سیکیورٹی میں آخری ملاقات کی، مجرم عمران علی سے اہلخانہ کی آخری ملاقات ایک گھنٹے تک جاری رہی، مجرم عمران علی بند کمرے میں موجود رہا اور اہلخانہ کو باہرکھڑکی سے صرف ہاتھ ملانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ملاقات کا وقت 45 منٹ متعین تھا لیکن اہلخانہ کی درخواست پر 15 منٹ مزید دے دیئے گئے۔

واضح رہے کہ رواں برس 4 جنوری کو قصور سے 6 سالہ زینب کو اغوا کیا گیا تھا جس کی لاش 9 جنوری کو کچرا کے ڈھیر سے ملی تھی، جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت زینب کے والدین عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں موجود تھے۔ معصوم زینب کے قتل نے پوری قوم کو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔ پولیس نے بھی ملزم کو ڈھونڈ نکالنے کی ٹھان لی، درجنوں افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی، لیکن اصل مجرم قابو نہ آیا، سینکڑوں لوگوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے۔

زینب کے قتل کی تحقیقات سے قصور میں معصوم بچیوں سے زیادتی اور ان کے قتل کی داستانیں بھی بے نقاب ہوگئیں، معاملے کی سنگینی کے پیش نظر عدالت عظمی کو مداخلت کرنا پڑی، 10 جنوری کو سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا، عدالت نے ملزم کی گرفتاری کیلئے 15 جنوری کی ڈیڈلائن دی، پھر وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف بھی کود پڑے اور مجرم کی فوری گرفتاری کیلئے پولیس کو احکامات جاری کئے۔ بالآخر 23 جنوری کو تمام تر کوششوں کے بعد ملزم عمران گرفتار ہوگیا، جو کوئی اور نہیں امین انصاری کا محلے دار ہی نکلا۔

عمران نے تفتیش کے دوران زینب سمیت 8 اور بچیوں سے زیادتی اور ان کے قتل کا اعتراف کرلیا تھا جس کے بعدسپریم کورٹ نے کیس انسداد دہشتگردی کی عدالت کو ریفر کر دیا، جہاں کچھ دن کی سماعت کے بعد  انسداد دہشتگردی عدالت نے اسے 4 بار  سزائے موت دینے کا حکم دیا ۔

مجرم کی جانب سے سزا کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں رحم کی اپیل بھی دائر کی گئی تھی تاہم 20 مارچ کو عدالت عالیہ نے یہ اپیل خارج کردی تھی۔انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے زینب کے قاتل مجرم عمران علی کے بلیک وارنٹ جاری کیے جس کے مطابق مجرم کو آج پھانسی دی گئی۔ مجرم عمران علی کو مجموعی طور پر 21 بار سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ 25 لاکھ روپے جرمانہ اور20 لاکھ 55 ہزار روپے دیت ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔

 
 

Sughra Afzal

Content Writer