پبلک اکاونٹس کمیٹی میں سپریم کورٹ رجسٹرار کی دوبارہ طلبی 23 مئی کو وارنٹ نکالنے کی وارننگ

Public Accounts Committee, Registrar Supreme Court, PAC, Audit Reports, City42
کیپشن: File Photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ کے رجسٹرار  منگل کے روز بھی سپریم کورٹ کی دس سال سے زیر التوا آڈٹ رپورٹیں لے کر  پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں حاضر نہیں ہوئے۔  پبلک اکانٹس کمیٹی کے چئیرمین نور عالم نے رجسٹرار عشرت علی کے کمیٹی کی بار بار طلبی  کے بعد بھی حاضر نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ تاہم چئیرمین نورعالم نے اپنے اعلان کے مطابق رجسٹرار عشرت علی کےوارنٹ گرفتاری جاری نہیں کروائے بلکہ رجسٹرار عشرت علی کو دوبارہ 23 مئی کو پیش ہونے کاحکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر  اس مرتبہ بھی وہ پیش نہ ہوئے و ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائیں گے۔ چئیرمین نور عالم اس ضمن میں اسپیکر قومی اسمبلی سے بھی ضروری مشورہ کریں گے۔ 

قبل ازیں 3 مئی کے اجلاس میں چئیرمین پی اے سی نور عالم نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی عدم حاضری پر انیں دوبارہ  16 مئی کو طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرر عشرت علی اب بھی پبلک اکاونٹس کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہوئے تو وہ ان کے وارنٹ جاری کریں گے اور اگر وارنٹ پر اسٹے آرڈر لیا گیا تو دوبارہ وارنٹ جاری کریں گے۔

چیئرمین کمیٹی نے گزشتہ اجلاس میں آڈیٹرجنرل کو ججز، صدر اور وزیراعظم کی تنخواہوں کا موازنہ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی تھی جس کی منگل کے روز تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے نیشنل کرائم ایجنسی یو کے سے 190 ملین پاؤنڈ کی پاکستان آمد کے معاملہ کا بھی ریکارڈ طلب کیا تھا۔

معلوم ہوا ہے کہ رجسٹرار عشرت علی کی بجائے سپریم کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے ایک خط پیش کر کے پبلک اکاونٹس کمیٹی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کی آڈٹ رپورٹوں کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت اورر زیر التوا ہے اس لئے وہ ریکارڈ لے کر پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں پیش نہیں ہو سکتے۔ 

اسسٹنٹ رجسٹرار  نے پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہو کر بتایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی منظوری سے ایک خط اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوایا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 81 کی ذیلی شق دو کے تحت سپریم کورٹ کے اخراجات لازمی اور غیر تصویبی ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے بجٹ پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ نہیں ہوسکتی۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو سپریم کورٹ کے مالیاتی امور کی جانچ پڑتال کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ رجسٹرار سپریم کورٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے روبرو پیش ہونے کے پابند نہیں ہیں۔ 

 نور عالم خان نے اجلاس میں کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ پی اے سی میں ضرور پیش ہوں گے، 

کمیٹی کے رکن برجیس طاہر نے کہا کہ آئین پاکستان میں یہ لکھا ہے کہ جہاں عوام کے ٹیکس کا پیسہ لگے  اسکا آڈٹ ہو گا، آج روایات کے برعکس رجسٹرار سپریم کورٹ  پیش نہیں ہوئے۔ ججز کا احتساب 10 گنا زیادہ ہونا چاہیے۔برجیس طاہر  نے کہا کہ اگر ہم ججوں سےتفصیلات نہیں لے سکتے تو پھر پی اے سی کو ختم ہو جانا چاہیے،چیئرمین پی اے سی  نے کہا کہ اسپیکر اور سیکرٹری قومی اسمبلی سے درخواست کی ہے کہ قانونی معاونت چاہئیے۔یہ اہم معاملہ ہےاس پر قانونی رائے بہت ضروری ہے۔

چئیرمین نورعالم خان نے کہا رجسٹرار سپریم کورٹ پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر ہیں، ان کو سمن کیا گیا۔ اگر پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر نہیں آتے تو پھر ان کے وارنٹ ایشو کردیتے ہیں۔ اراکین نے رائےدی کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک بار پھر سمن کریں۔ڈاکٹر مختار  نے کہا کہ اگر رجسٹرار اگلے اجلاس میں نہیں آتے تو پھر وارنٹ ایشو کئے جائیں، اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ اس خاص ایشو پر رجسٹرار کو دوبارہ خط بھیجیں،ان سے ریکارڈ طلب کریں جو ضروری ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے اس پر کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کو کمیٹی میں پیش ہونے کا ایک اور موقع دیتے ہی۔اگلے منگل کو ان کو کمیٹی میں بلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس حوالے سے قومی اسمبلی کے ایوان سے بھی اجازت لوں گا۔ 

نور عالم خان نے پی اے سی کے اسٹاف کو حکم دیا کہ سپریم کورٹ کے آڈٹ پیراز تحریری شکل میں بھی لائے جائیں۔  انہوں نے ہدایت کہ کہ کمیٹی کو سپریم کورٹ کے آڈٹ کے معاملہ پر عرفان قادر، شبر رضوی، یاسین آزاد تینوں وکلا کی معاونت چاہئے۔ انہوں نے رجسٹرار عشرت علی کی عدم حاضری پر کہا کہ اگر یہ روایت بن گئی تو پھر کوئی بھی پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر نہیں آئے گا

اسٹیٹ بنک کے گورنر کو ہدایت کی جاتی ہے کہ سپریم کوٹ کے اکاونٹس کے  آڈٹ  کے ضمن میں آڈیٹر جنرل آفس کے سوالات کا جواب دیں۔گورنر اسٹیٹ بنک حسابات کی تفصیلات دینے کے پابند ہیں۔

 چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر نہیں آئے۔ کمیٹی کے رکن شیخ روحل اصغر نے کہا کہ پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر نہیں آئے اور سپلیمنٹری گرانٹس پر کون جواب دے گا؟ سپریم کورٹ کی گرانٹس میں کمی کر دی جائے۔

نور عالم خان نے کہا کہ پی اے سی کوئی کام قانون سے باہر نہیں کر سکتی، 95 پیراز بنے تھے جس میں سے 12 سیٹل ہوئے اور 83 سیٹل نہیں ہوئے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان نے دوران اجلاس پی اے سی کو بریفنگ دی اور بتایا کہ فل کورٹ کا ایک فیصلہ تھا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ پیش نہیں ہوں گے۔ اس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کیا یہ خلاف قانون نہیں ہے؟

ٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ اُس فیصلے میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ وہ معلومات نہیں دیں گے۔ اس پر نور عالم خان نے کہا کہ جب ڈیم فنڈ اکاؤنٹ کھولا جا رہا تھا تو یہ کہا گیا کہ اس کا آڈٹ ہو سکے گا، ہم سپریم کورٹ سے کوئی غیر قانونی چیز نہیں مانگ رہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو بھی رقم سپریم کورٹ خرچ کرتی ہے آڈیٹر جنرل اس کا آڈٹ کرتا ہے، تفصیلات طلب کرنا پی اے سی اور دینا سپریم کورٹ رجسٹرار کی ذمہ داری ہے۔نور عالم خان نے کہا کہ آڈٹ پیراز پر رجسٹرار کو جواب دہ ہونا ہے، وزارت خزانہ کی طرف سے فراہم کردہ تمام فنڈز کے بارے میں آڈٹ کے حوالے سے پوچھا جا سکتا ہے۔

ڈیم فنڈ کے ایجنڈا پوائنٹ پر کارروائی کے دوران نور عالم خان نے کہا کہ ڈیم فنڈ کے قیام کے وقت سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود لکھا تھا کہ فنڈ کا آڈٹ ہو گا۔ 

 اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو ملنے والے تمام فنڈز پبلک فنڈز ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ڈیم فنڈ کی رقم کو پبلک اکاؤنٹ کے بجائے کسی اور اکائونٹ میں رکھا گیا۔ جس مقصد کیلئے عوام نے عطیات دئیے وہ پورا ہوا یا نہیں یہ بحث بعد کی ہے۔  اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کے مطابق ڈیم فنڈ کا آڈٹ ہونا چاہیئے۔ پی اے سی کو آڈٹ حکام کی نشاندہی پر سپریم کورٹ سے معلومات لینے کا اختیار حاصل ہے۔ معلومات فراہم کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔  اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ کا بجٹ چارجڈ ہوتا ہے جس پر ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔

 پی اے سی نے اس پر قرار دیا کہ سپریم کورٹ کے بجٹ پر وٹنگ نہیں ہو سکتی لیکن آڈٹ ہو سکتا ہے۔ نور عالم خان نے کہا سپریم کورٹ کو فنڈز عوام کے پیسوں سے دئیے جاتے ہیں۔ پی اے سی سپریم کورٹ کی آڈٹ رپورٹ کو زیر غور لائے گی۔روحیل اصغر نے کہا چیئرمین صاحب تنخواہ کے ساتھ ساتھ ججز کی مراعات کی تفصیل بھی منگوائیں۔  لیگی رکن شیخ روحیل اصغر نے سپریم کورٹ کے بجٹ میں کٹوتی کا مطالبہ بھی کر دیا. پی اے سی نے چیف جسٹس اور ججز کی مراعات کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔