کیا کالا باغ ڈیم بننا چاہیے؟وفاقی وزیرآبی وسائل مونس الہٰی کی تجویزمیں کتنا وزن?

کیا کالا باغ ڈیم بننا چاہیے؟وفاقی وزیرآبی وسائل مونس الہٰی کی تجویزمیں کتنا وزن?
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ویب ڈیسک :  پاکستان میں کالاباغ ڈیم بنانے کے منصوبے کے بارے میں پچھلی تین دہائیوں سے بات ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر مونس الہٰی نے کالا باغ ڈیم منصوبے کا معاملہ وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے  کابینہ  اجلاس  میں پیش کردیا لیکن وفاقی وزراء نے کالا باغ ڈیم کے بارے میں مونس الہٰی کی تجویز کی مخالفت کی اور موقف اختیار کیا کہ سندھ میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، کالا باغ ڈیم پر پہلے ہی مخالفت ہے، کالا باغ ڈیم پر کمیٹی بنانے کا مناسب وقت نہیں ہے۔

 پاکستان میں کالاباغ ڈیم بنانے کے منصوبے کے بارے میں پچھلی تین دہائیوں سے بات ہو رہی ہے۔سندھ اور صوبہ سرحد اس منصوبے کی سخت مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ڈیم کے بننے سے صرف پنجاب کو فائدہ ہوگا جبکہ دوسرے صوبوں کو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا ۔ ان کے مطابق ڈیم کے بننے سے نوشہرہ زیر آب آجائے گا اور سندھ میں دریائے سندھ میں پانی کم ہو جائے گا۔

  کیا کالا باغ ڈیم بننا چاہیے؟ کیا اس کے بننے سے ملک میں پانی کامسئلہ حل ہو سکے گا یا اس سے صوبوں کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہوگا؟ اور اب جب عالمی ماہرین یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ بڑے ڈیم بنانا ایک بہت بڑی غلطی ہے تو کیا پاکستان کو ایسا کرنا چاہیے؟ کالاباغ ّیم کے بننے سے کس کو فائدہ پہنچے گا؟

کالاباغ ڈیم پنجاب کی سرزمین پر بننے والا آبی منصوبہ ہے جو سیاسی بدمعاشیہ کی نظر ہوگیا۔ اس ڈیم کے لیے پہلا سروے غالباً برطانوی حکومت نے قیام پاکستان سے قبل 1873ء میں کیا تھا۔ قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948ء میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کیا گیا۔ بھارت نے پاکستان کا پانی بند کر دیا پاکستان ورلڈ بنک اس مسئلے کو لے گیا۔ بھارت پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پایا۔

ایوب خان نے پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ضروری سمجھا مگر ایوب دور میں دیگر آبی منصوبوں کی تعمیر زور و شور سے جاری تھی اس لیے کالا باغ ڈیم صرف کاغذوں تک محدود رہا۔ کالاباغ کی باری آنے سے پہلے ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں پہلی بار اس ڈیم کو پاکستان کے لیے مضر قرار دیا گیا اور اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی گئی۔

کالا باغ ڈیم پر صحیح معنوں میں کام جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں خصوصی طور پر ڈیموں کے ماہر ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے رپورٹ تیار کی۔ 1983ء میں ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق اس ڈیم کی اونچائی 925 فٹ ہو گی، 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کیا جاسکے گا اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ درکار ہو گا اور یہ پورے ملک کے 50 لاکھ ایکڑ بنجررقبے کو سیراب کریگا۔ 8 بلین ڈالر اس کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔ 5000 میگا واٹ تک بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکے گی۔
جنرل ضیا الحق کے حکم پر کالا باغ کی تعمیر  روڈ بنائے گئے دفاتر اور ہاؤسنگ کالونی تعمیر کی گئی اور مشینری منگوائی گئی۔ کے پی کے نے اعتراض کیا کہ کالا باغ ڈیم کے موجودہ ڈیزائن سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا اس عذر کو دور کرنے کیلئے ڈیزائن میں تبدیلی لائی گئی اور ڈیم کی اونچائی 925 سے915 فٹ کر دی گئی۔ سندھ میں موجود اس وقت کی "سول سوسائٹی" نے اعتراض اٹھایا کہ پنجاب سندھ کا پانی غصب کر لے گا یہ منصوبہ سندھ کی عوام کو منظور نہیں، تب جنرل ضیاء نے چاروں صوبوں کو پانی کی تقسیم کے ایک فارمولے پر راضی کیا اس معاہدے اور فارمولے کے مطابق پنجاب 37 فیصد سندھ 33 فیصد سرحد 14 فیصد اور بلوچستان 12 فیصد دریائی پانی لینے پر راضی ہو گئے  لیکن اس اتفاق کے ساتھ ہی 17اگست 1988 کو طیارہ حادثے میں جنرل ضیا الحق متعدد دیگرجنرلز اور امریکی سفیر و دفاعی اتاشی کے ہمراہ جاں بحق ہوگئے ۔ یاد رہے کہ جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان میں سب سے زیادہ چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد یہ منصوبہ دوبارہ کھٹائی میں پڑ گیا اور آنے والی دونوں جمہوری حکومتوں نے حسب معمول اس کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دینا شروع کیا۔

جنرل پرویز مشرف نے کالاباغ سمیت ملک بھر میں 6 بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ " ڈیم نہیں بنائنگے تو مر جائینگے "۔ ان منصوبوں میں نیلم جہلم، کالاباغ، بھاشا، منڈا، اکھوڑی اور کرم تنگی ڈیم شامل ہیں۔ 2005ء میں مشرف نے یہ اعلانات کیے اور 2007ء میں وکلاء تحریک کی وجہ سے اپنی وردی سے ہاتھ دھونا پڑے، 2008ء میں استعفی دے دیا۔
تاہم ان دو سالوں میں نئے سرے سے ان تمام ڈیموں کی فیزیبلٹی رپورٹ بنائی گئی، جبکہ نیلم جہلم پر کافی کام نمٹا لیا گیا اور غازی بھروتہ منصوبے کو مکمل کیا گیا۔

مشرف کے بعد آنے والا جمہوری دور ہر لحاظ سے پاکستان کے لیے مہلک ثابت ہوا۔ بھاشا، کرم تنگی، منڈا اور اکھوڑی ڈیموں کو لٹکا دیا گیا۔
2008ء میں مکمل ہونے والے نیلم جہلم منصوبے کو 2018ء تک کھینچ لیا گیا۔ لیکن سب سے بڑا ظلم کالاباغ ڈیم پر کیا گیا جس کو نواز شریف اور آصف زرداری نے ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کر دیا۔

کالاباغ ڈیم کے فوائد

1۔ پاکستان کے تینوں بڑے ڈیموں تربیلا، منگلا اور چشمہ کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ ہے جبکہ کالا باغ ڈیم اکیلے 6 ملین ایکڑ فٹ سے زائد پانی ذخیرہ کرے گا۔ ڈیم میں تین سال کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا ۔

2۔ کالا باغ ڈیم پاکستان کی 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو سیراب کرے گا۔ نہری پانی کی فی ایکڑ پیدوار آجکل تین لاکھ روپے سالانہ ہے۔ اس حساب سے صرف کالا باغ ڈیم سے پاکستان کو سالانہ 15 ارب ڈالر کی زائد زرعی پیدوار ملے گی جس کے بعد پاکستان زرعی اجناس میں سے کچھ بھی درآمد نہیں کرنا پڑے گا البتہ پاکستان کی زرعی برآمدات دگنی ہوجائنگی۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب کے جنوبی علاقے ، سندھ کے زیریں علاقے اور بلوچستان کے مشرقی حصے اس ڈیم کے پانی کی بدولت قابل کاشت بنائے جاسکتے ہیں.
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع (کرک ، بنوں ، لکی مروت ، ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان) کو زرعی مقاصد کے لئے مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا اور وہاں کی تقریباً 8 لاکھ ایکڑ بنجر زمین قابل کاشت ہوجائیگی۔ جس کے بعد کے پی کے کو کسی بھی صوبے سے گندم خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اور زرعی اجناس کی افغانستان برآمدات زبردست اضافہ ہوگا۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کو بھی اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوگا ۔ سندھ میں خریف کی کاشت کے لیے پانی دستیاب ہوگا جس کی اس وقت شدید قلت ہے ۔ سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس کالاباغ ڈیم سے بجھ سکے گی ۔ اس زرعی پانی سے سندھ کی 8 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہونے کے علاوہ سیم زدہ لاکھوں ایکڑ زمین قابل کاشت ہوجائے گی۔
بلوچستان کو اس ڈیم سے 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکتا ہے جس سے مشرقی بلوچستان کا تقیرباً 7 لاکھ ایکڑاضافی رقبہ سیراب ہوسکے گا اور شائد بلوچستان میں پہلی بار لہلہاتی فصلیں دیکھنے کو ملیں۔

3۔ کالا باغ ڈیم سے پاکستان 4 سے 5 ہزار میگاواٹ سستی بجلی پیدا کرے گا۔ تقریباً ڈھائی روپے فی یونٹ۔
اس وقت پاکستان 60 فیصد سے زائد بجلی تیل سے بنا رہا ہے جو ہمیں 15 سے 20 فی یونٹ پڑتی ہے۔ صرف نواز شریف کے ان پانچ سالوں بجلی بنانے کے لیے خریدے گے تیل کا قرضہ 1 ہزار ارب روپے سے زائد ہوچکا ہے۔ یعنی سالانہ 200 ارب روپے۔ اگر کالا باغ ڈیم سے بننے والی بجلی سسٹم میں داخل ہوتی ہے تو یہ خرچہ آدھا رہ جائیگا۔ اور عوام کو ملنے والے بجلی کے بل ایک تہائی رہ جائیں گے۔

4۔ سستی بجلی کی وجہ سے کارخانوں میں اشیاء کی پیدواری لاگت نہایت کم ہوجاتی ہے جس کے بعد وہ عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی اشیاء کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان میں لیبر پہلے ہی سستا ہے اگر پاکستانی کارخانوں کو سستی بجلی فراہم کی جائے تو پاکستان میں بند ہونے والے تمام کارخانے چل پڑیں اور لاکھوں لوگوں کو فوری طور پر روزگار مل جائیگا۔ پاکستان کی برآمدات میں  کئی گنا اضافہ اور درآمدات کمی  آئےگی۔ سستی بجلی اور لیبر کی وجہ سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافہ ہوگا جس کا مطلب مزید پیدوار، مزید روزگار اور مزید صنعتی ترقی۔

5۔ پاکستان کا  بھارتی ڈیموں کے خلاف عالمی محاذ پر کیس مضبوط ہوگا کہ پاکستان کے پاس ڈیم ہے اور پاکستان دریاؤوں کا پانی ضائع نہیں کر رہا ہے۔

6۔ کالاباغ ڈیم منصوبے میں کم از کم 60 ہزار لوگوں کو براہ راست ملازمتیں ملیں گی۔

7۔ کالاباغ ڈیم کی جھیل میں پانی جمع ہونے سے ماحول پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں اورموسمی ماہرین کے مطابق کچھ عرصہ بعد قریبی اضلاع کے درجہ حرارت میں کمی اور بارشوں میں اضافے کا امکان ہے۔

8۔ صرف کالا باغ ڈیم کی وجہ سے بڑھنے والی زرعی اور صنعی پیدوار اور کم ہونے والی درآمدات کی وجہ سے پاکستان چند سالوں میں بیرونی قرضہ چکانے کے قابل ہوجائیگا۔

9۔ پاکستان میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے یا انڈیا کے زیادہ پانی چھوڑنے کی وجہ سے ہر تھوڑے عرصے بعد آنے والے سیلاب بند ہوجائنگے اور زائد پانی کو فوری طور پر ذخیرہ کر لیا جائیگا۔ یوں ہر سال ہونے والا اربوں روپے کا نقصان اور عوام کو پہنچنے والی تکلیف بند ہوجائیگی۔

سندھ کا حال یہ ہے کہ وہاں کے اکثر لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ ” پنجاب پانی سے میں ساری بجلی نکال لے گا جس کے بعد ہمار ےپاس صرف پھوک رہ جائیگی”
 صوبہ خیبر پختونخوا کے کالا باغ بند پر تین بڑے اعترضات ہیں،

1۔ بجلی پیدا کرنے والےٹربائن اور تعمیرات پنجاب میں واقع ہوں گی۔ اس لیے صوبہ پنجاب وفاق سے پیدا ہونے والی بجلی پر رائلٹی کا حقدار تصور ہو گا۔ اس اعتراض کے جواب میں صوبہ پنجاب نے وفاقی رائلٹی سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔

2۔ ضلع نوشہرہ کا بڑا حصہ ڈوبنے کا خطرہ ہے اور کچھ علاقے بنجر ہونے کا خدشہ ہے۔
جنرل ضیاء کے دور میں ڈیم کی اونچائی کم کی گئی جس کے بعد اے این پی کے ولی خان کا اس پر اعتراض ختم ہوگیا تھا۔ میانوالی جہاں یہ ڈیم بننا ہے سطح سمندر سے 688 فٹ بلند ہے جبکہ نوشہرہ کی سطح سمندر سے بلندی 889 فٹ ہے۔
ڈیم کی تعمیر سے کل 27500 ایکڑ رقبہ زیرآب آئے گا جس میں سے 24500 ایکڑ رقبہ  پنجاب سے اور صرف 3000 ایکڑ رقبہ صوبہ خیبر پی کے میں واقع ہے۔

جہاں تک زمین بنجر یا سیم تھور کے مسئلے کا خطرہ ہے تو بڑے پیمانے پر پانی کی نہریں اور ٹیوب ویل کھود کر باآسانی حل کیے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ڈیم کی تعمیر سے سیم اور تھور کے مسائل پیدا نہیں ہوں گے کیونکہ پانی کی موجودہ سطح نوشہرہ سے دس میل نیچے کی جانب برقرار ہے۔

3۔ کچھ آبادی کو نقل مکانی کرنی ہوگی۔

 صوبہ سندھ نے سب سے پہلے کالا باغ منصوبے کی مخالفت کی  اوریہ نظریہ ہے کہ ” پنجاب ہمارا پانی چوری کرتا ہے ”  لیکن آج تک اس ” چوری ” کو ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ سندھی عوام کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونسی گئی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے سے بہہ کر آنے والا دریائے سندھ صوبہ سندھ کا ہے۔

صوبہ سندھ کی باقی تمام ذیلی اعترضات اس بنیادی اعتراض سے جڑے ہیں کہ صوبے کا پانی کم ہوجائیگا جس کے نتیجے میں فلاں فلاں مسئلہ ہوگا۔

پہلی بات یہ کہ ڈیم کی تعمیر سے 1991ءکے معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں ہوگی کیونکہ اس میں صوبوں کےلئے پانی کا حصہ مقرر ہے۔ڈیم کی تعمیر کے بعد بھی سمندر میں 10 ملین ایکڑ فٹ پانی گرتا رہے گا۔ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کا اضافی 8 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا۔

 بلوچستان کا اعتراض

بلوچستان کسی بھی صورت کال باغ ڈیم سے متاثر نہیں ہوگا۔ بلکہ بلوچستان میں تعمیر ہونے والے کچی کنال نہر کو اپنے حصے سے اضافی پانی ملنا شروع ہوگا۔  بلوچستان کا کم از کم 7 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا۔ بلوچستان کا اعتراض دراصل ان قوم پرستوں کا اعتراض ہے جو پاکستان سے علیحدگی کی تحریکیں چلا رہے ہیں ان کو موقف ہے کہ کالاباغ ڈیم سے ان کو براہ راست کوئی نقصان نہیں لیکن چونکہ سندھ جیسا چھوٹا صوبہ اس ڈیم سے متاثر ہو رہا ہے اس لیے ہم علامتی طور پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ڈیم نہ بنانے کے نقصانات: 

1۔ کالاباغ ڈیم پر جنرل ضیاء کے بعد کام بند کر دیا گیا۔ اصولاً یہ ڈیم 1993ء میں آپریشنل ہوجانا چاہئے تھا۔ یوں اس ڈیم پر 25 سال سے کام نہیں ہوا۔ کالاباغ ڈیم سے اضافی 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب ہونی تھی۔ نہری زمین کے پیش نظر فی ایکڑ 3 لاکھ روپے سالانہ پیداوار لگائیں تو اب تک ہم اپنا 37500 ارب روپے یا 375 کھرب روپے یا 375 ارب ڈالر کا نقصان صرف پیدوار کی مد میں کروا چکے ہیں۔  سیلاب پاکستان میں تقریباً ہر سال آکر اربوں ڈالرز کا نقصان کر دیتے ہیں۔ اگر کالاباغ ڈیم بنا ہوتا تو ہم وہ سارا پانی ذخیرہ کرلیتے اور سیلابوں سے بچے رہتے۔ اس کا اندازہ نہیں کہ ان 25 سالوں میں سیلابوں سے ہم کتنا نقصان کروا چکے ہیں۔