(ملک اشرف): چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کوئی عدالت پر دباؤ ڈال کر فیصلہ نہیں لے سکتا ہے۔ آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے، ہر جج اپنے ضمیر کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق آواری ہوٹل میں پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام حصول انصاف کے لیے سائلین کو درپیش مسائل اور انکے حل کے موضوع پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ فیصلے آئین اور قانون کے مطابق کیے گئے ہیں۔ ہر جج اپنے ضمیر کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہا ہے، اگر عدلیہ آزاد نہ ہوتی ہوتا تو حدیبیہ پیپر ملز کا جو فیصلہ آیا وہ نہیں آتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے دعوی کیا کہ آج تک کوئی پیدا نہیں ہوا جو ان پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا فیصلہ کرا لے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جمہوریت نہیں تو آئین بھی نہیں۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان سے بڑا عہدہ اور کیا ملنا ہے۔ ایسے لوگ بھی تبصرے کر رہے ہوتے ہیں جنہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں بھی علم نہیں تھا کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ بھی جمعے کو آنا ہے۔
چیف جسٹس نے مقدمات میں زیادہ فیسیں وصول کرنیوالے وکلاء کو بھی آڑے ہاتھوں لیا، انکا کہنا تھا کہ اب تو وکلا کی فیسیں پچیس لاکھ سے ڈھائی کروڑ تک جاپہنچی ہیں۔ کیس بنتا نہیں اور وکیل سائل کو کہہ دیتا ہےکہ ان کی جج سے بات ہوگئی ہے۔ کیا پاکستان بار نے ایسے وکلا کے خلاف کوئی کارروائی کی۔
میاں ثاقب نثار نے کہا کہ انصاف میں تاخیر کا بڑا سبب ججز پر ہونیوالی تنقید ہے۔ عدلیہ کا ادارہ آپ کا بابا ہے اپنے بابے کو گالیاں نہ دیں۔