انسانی المیہ،افغانستان میں بھوک سے تنگ شہریوں کی بچوں کی خریدوفروخت

afghan children in camps
کیپشن: afghan children
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

  ویب ڈیسک :  افغانستان کے ہرات اور بادغیس صوبوں میں 5 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کی فروخت کے 10 واقعات کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔ لڑکوں کو 200 ڈالر( 35ہزار پاکستانی روپے پاکستانی) اور لڑکیوں کو 120 ڈالر(21 ہزار پاکستانی روپے ) میں فروخت کیا جارہا ہے۔

 عالمی ادارہ برائے اطفال کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بھوک اور غربت سے تنگ آکر کچھ خاندانوں نے  اپنے نوزائیدہ بچوں کو بھی فروخت کردیا ہے۔ یادرہے جمہوری اسلامی اخبار نے اکتوبر میں رپورٹ کیا تھا کہ افغانستان میں لڑکوں کو 200 ڈالر اور لڑکیوں کو 120 ڈالر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں افغانستان میں  کمسنی کی شادیوں میں اضافے  پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔28 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔یونیسیف کی رپورٹ میں سیاسی اور معاشی بحران، کرونا وائرس کی وباء، سردیوں کی آمد اور خوراک کے بحران کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ افغانستان میں حالات زندگی کو خراب کرنے والے اہم ترین عوامل میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے ستمبر میں خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں لاکھوں افراد کو جلد ہی غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں صرف اس سال خشک سالی اور جنگ کی وجہ سے 550,000 سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور ان بے گھر افراد سے پہلے بے گھر ہونے والوں میں 20 لاکھ افراد میں اضافہ ہوا ہے۔پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً نصف بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور افغانستان کی ایک تہائی آبادی یعنی تقریباً 14 ملین کسی نہ کسی شکل میں خوراک کی کمی یا عدم تحفظ کا شکار ہیں۔