سٹی 42: 2013 کے عام انتخابات سےپہلے ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات میں ہونے والے اختلافات کی وجہ سے کچھ نالاں اراکین نے اپنی جماعتیں بنا ڈالیں، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی دو ہمنام جماعتیں پاکستان تحریک انصاف نظریاتی اور پاکستان تحریک انصاف گلالئی کے نام سے سامنے آئیں۔
2016 میں شیخوپورہ سے تحریک انصاف کے سابق رہنماء اور دیرینہ کارکن اختر اقبال ڈار نے اختلافات کی بنا پر پارٹی چھوڑ کر اپنی نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے نام سے بنائی تھی، جسے انہوں نے الیکشن کمیشن سے باقاعدہ رجسٹرڈ بھی کرایا تھا۔ اختر اقبال ڈار اس نئی پارٹی کے چئیرمین ہیں۔
2017 میں پارٹی سے نالاں کارکن اور پی ٹی آئی کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی سابق رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر بہت سے الزامات لگائے۔ عائشہ گلا لئی نے عمران خان سے شادی کے معاملے پر اختلافات کے بعد پارٹی چھوڑدی تھی۔ انہوں نے اپنے بیانات میں پی ٹی آئی چیئرمین پر کڑی تنقید کی، بے ہودہ موبائل پیغامات بھیجنے کا الزام لگایا اور تحریک انصاف کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔عائشہ گلالئی نے اپنی نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف گلالئی کے نام سے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجسٹرڈ کروایا۔
2011 میں کئی ساتھیوں کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے سیاست دان جہانگیر ترین خان نے بھی اختلافات کے باعث 2022 میں عمران خان سے بغاوت کر دی اور پی ٹی آئی کے مخالف کے طور پر کھڑے ہو گئے۔ 2023 میں جہانگیر ترین نے اپنی نئی سیاسی جماعت کا اعلان کیا، جو کہ اب استحکام پاکستان پارٹی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی بہت سی اہم شخصیات استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ جماعتیں اور ان کے رہنما آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ آئندہ الیکشن میں یہ ہمنام جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو کم یا زیادہ لیکن نقصان ضرور پہنچا سکتی ہیں۔