لاہور ہائیکورٹ؛ پنجاب اسمبلی کے معاملے پر فیصلہ محفوظ

لاہور ہائیکورٹ؛ پنجاب اسمبلی کے معاملے پر فیصلہ محفوظ
کیپشن: Lahore High Court
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک:لاہورہائیکورٹ نے پنجاب اسمبلی اجلاس کی طلبی کا نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کیخلاف درخواستوں پرفیصلہ محفوظ کر لیا۔

چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ محمد امیربھٹی نے ڈپٹی اسپیکردوست محمد مزاری اورحمزہ شہبازکی درخواستوں پرسماعت کی۔مسلم لیگ ق کی طرف سے صفدر شاہین پیرزادہ، عامر سعید راں ایڈووکیٹس جبکہ اسپیکر صوبائی اسمبلی کی طرف سےبیرسٹرعلی ظفراورحمزہ شہباز کی طرف سے اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی طرف سے بیرسٹر محمد عمرکے علاوہ سیکریٹری اسمبلی محمد خان بھٹی بھی اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

حمزہ شہباز کے وکیل نےعدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر کو چارج لینے کا حکم دیا تھا اس پر عملدرآمد ہوگیا ہے۔بیرسٹرعلی ظفرنےاسپیکر صوبائی اسمبلی کی طرف سے دلائل میں کہا گیا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔ آئینی عدالت کوانتخابات کیلئے تاریخ تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

اسپیکرصوبائی اسمبلی کے وکیل نے کہا کہ وزیراعلی کے انتخاب کیلئے مقرر تاریخ میں ویسے بھی تین سے 4 دن باقی ہیں۔ درخواستگزار صوبائی اسمبلی کو ایگزیکٹو کے دائرہ اختیارمیں لانا چاہتے ہیں۔

بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ اب ہائیکورٹ اسمبلی کے معاملے پر فیصلہ کرنے بیٹھی ہے۔ صوبائی اسمبلی ایک آئینی ادارہ، قانون سازی کرتی ہے، یہ کیس ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

اسپیکر اسمبلی کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 69 کے تحت مجلس شوری کے اقدام پرعدالت میں سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ رولز آف بزنس کے تحت صوبائی اسمبلی کےامور، عدالت مداخلت نہیں کرسکتی۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ بالکل اسی طرح صوبائی اسمبلی ہائیکورٹ کو نہیں پوچھ سکتی کہ کیسز کیوں تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔ پارلیمنٹ اور عدالتیں ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، اس لئے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرتے۔

صوبائی اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ اگرعدالتیں اور اسمبلی ایک دوسرے کھ اختیارات میں مداخلت کریں تو یہ ٹکراؤ ہوگا۔ درخواست گزاروں کا کہنا کہ اسمبلی رولز پر عمل نہیں کیا جا رہا جو اسمبلی کا اپنا معاملہ ہے۔ اگروزیراعلی کے الیکشن ہی نہ کروائے جائیں توعدالت مداخلت کرسکتی ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ اگررولز آف بزنس کے تحت تاریخ تبدیل ہو تو یہ اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاریخ تبدیل ہونے کے بعد اسمبلی میں کوئی نیا بزنس ایجنڈے پرنہیں آیا۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ انتخاب سے ایک روز قبل کاغذات نامزدگی کا عمل مکمل کرنا لازم ہے۔

صوبائی اسپیکر کے وکیل نے دلائل دیے کہ وزیراعلی کا انتخاب ہونے والا ہے، 3 دن آگے یا پیچھے کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسپیکر کو کیا اختیار ملنے چاہئیں یا وہ کیا اختیارات استعمال کریں گے اس کا فیصلہ اسمبلی رولز ہی کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت کے امیدواراسپیکر نے ڈپٹی اسپیکر کو دیے گئے اختیارات واپس کیوں لیے؟

چودھری پرویزالٰہی کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسپیکر کا دفتر خالی نہیں ہے، اسپیکراگرامیدوار ہے تو الیکشن والے روز اسپیکر اپنے اختیارات ڈپٹی اسپیکر کو منتقل کرے گا۔ عدالت کو سماعت کا اختیار نہیں، میں اس عدالت کا احترام کم نہیں ہونے دینا چاہتا۔

اسپیکراسمبلی کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے بھی اگر ہدایت کرنی ہے تو رولز کے اندر ہی ہدایات جاری کرسکتی ہے۔حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ بارنے سندھ ہاؤس کے معاملے پرسپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اراکین کے منحرف ہونے کیخلاف درخواست پرابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

اعظم نذیر تارڑنے دلائل میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے عدم اعتماد تحریک کے باوجود ووٹوں کی گنتی کروائی۔ قاسم سوری پرعدم اعتماد کے باوجود کسی نے بھی ان پراعتراض نہیں کیا۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ جس رات اسپیکر قومی اسمبلی نے استعفی دیا اس وقت بہت صورتحال خراب ہو چکی تھی۔ سپریم کورٹ 11 بجے کھل چکی تھی۔ وزیراعلی کے استعفے کے بعد نئے انتخاب کیلئے گورنرنے سیشن طلب کر لیا تھا۔

اعظم نذیر تارڑ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ کسی بھی طرح پنچائیتی طورپریہ معاملہ حل ہو جائے۔