بجٹ سےمہنگائی نہیں آئےگی،ساڑھےتین فیصدگروتھ با آسانی کرلیں گے،اسحاق ڈار

Ishaq Dar post-budget news conference live, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار  نے کہا ہے کہ  بجٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے کاروباری طبقے کے تحفظات دور کریں گے ۔گزشتہ روز اسحٰق ڈار نے مالی سال 24-2023 کیلئے 145 کھرب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا، جس میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 1150 روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی تھی۔مالی سال 2023 کے بجٹ کے حوالے سے  پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں اسحاق ڈار نے بتایا کہ پیٹرولیم لیوی 50 روپے سے بڑھانے کی تجویز زیر غور نہیں اورڈبے میں دودھ پر 9 فیصد ٹیکس نہیں لگایا جا رہا ، کھانے پکانے کے تیل سے سیلزٹیکس نہیں ہٹایا گیا۔ دودھ پر سیلز ٹیکس لگانے کی صرف تجویز تھی جسے مسترد کردیا گیا۔

دفاع کے بجٹ پر بعض حلقوں کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ دفاعی بجٹ حقیقت پسندانہ ہے، دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا 1.7فیصد ہے۔

 اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک کی معاشی تباہی کا سفر رک گیا ہے۔اب پاکستان کو معاشی ترقی کے راستے پر لے جانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں زراعت اور آئی ٹی کو مراعات دی گئیں۔زرعی شعبہ کو 2200 ارب روپے کے قرضے جاری کیے جائیں گے۔درآمدی بیجوں پر ٹیکسز ختم کر دیے گئے ہیں۔ ہاروسیٹر پر ڈیوٹیز ختم کردی گئی ہیں۔ زرعی صنعتوں کے لیے رعایتی اسکیم جاری کی جا رہی ہے ۔

 اسحاق ڈار  نے بتایا کہ نئے بجٹ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو  ایک لاکھ ڈالرز پاکستان لانے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ کوئی ایمنسٹی اسکیم نہیں ہے۔

 اسحاق ڈار  نے بتایا کہ بیرون ملک کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈز کے استعمال پر اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے۔ اسلام آباد میں ریسٹورنٹ پر کارڈ کے ذریعے بل ادا کرنے پر ٹیکس رعایت دی گئی ہے۔ بینکوں سے رقوم نکلوانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس بحال کیا گیا ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ جو لوگ ڈیفالٹ کی بات کرتے ہیں وہ  دراصل اس کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اس جرم میں میں شریک ہیں۔

اسحاق ڈار  نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ آئی پی پیز کی کیپسٹی پیمنٹ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ پاور سیکٹر کو ایک ہزار ارب روپے کی سبسڈی نہیں دینی چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کا پیرس کلب کا قرضہ موخر کرنے کا کوئی پلان نہیں ہےتاہم دو طرفہ قرضے ری شیڈول ہونے پر غور ہوسکتا ہے۔

اسحاق ڈار نے ایک سوال کے جواب میں تصدیق کی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دسویں جائزے کوئی امکان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے نویں جائزے کے لیے تمام شرائط پوری کردی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ مقامی قرضے ری شیڈول کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بیرونی ادائیگیوں کے لیے اپنی چادر میں پاوں پھیلانا ہوں گے۔

 اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ میں 25 سال سے ڈیل کر رہا ہوں،آئی ایم ایف نے کبھی اتنی تاخیر نہیں کی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف تاخیر جیو پولیٹیکل معاملات کی وجہ سے کر رہا ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے چار ارب ڈالر فائنانسنگ کا بندوبست کر لیا تھا، آئی ایم ایف مزید دو ارب ڈالر کی فائنانسنگ کا بندوبست کرنے کا کہہ رہا ہے۔

پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے کہاکہ بجٹ کے بعد تجاویز کا جائزہ لینےکے لیے  دو کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں۔حکومت بجٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے کاروباری طبقہ کے تحفظات دور کرے گی۔ پرائیوٹ پبلک سیکٹر دونوں کو  ساتھ لےکر چلنے سے ملک کا پہیہ چلےگا، ایف بی آر کی کلیکشن 12,163 ارب روپے ہے، ایس ڈی پی میں ہیلتھ، ایجوکیشن سوشل سیکٹر اور ٹرانسپورٹ کے لیے بجٹ رکھا گیا ہے۔

 اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ صوبوں کا ترقیاتی بجت 1559ارب روپے ہے، وفاق کا 1150ارب کا ترقیاتی بجٹ ہے، پی ایس ڈی پی پر شفاف طریقے سے عمل کیا تو نظام بہتر ہوجائےگا، پچھلی  حکومت نے  پبلک قرضے بڑھادیے، قرضوں کی مد میں اس بجٹ میں بھی بڑی رقم جائےگی، بجٹ کے اہداف حاصل کریں گے،گروتھ ہوگی تو ملک کا پہیہ صحیح چلےگا، آئندہ مالی سال ترقی کی شرح کو 3.5فیصد رکھا ہے، افراط زر کا ہدف 21 فیصد ہے، جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا تناسب 8.7 فیصد ہے۔

 وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ بجٹ روایت سے ہٹ کر بنایا ہے،گروتھ ہوگی تو ملک ترقی کرےگا، زراعت پر خصوصی توجہ دی ہے، زرعی شعبہ سب سے زیادہ  اور سب سے جلد فائدہ دیتا ہے، پوری کوشش کریں گے واپس گروتھ کی طرف جانا ہے، ملک کو دوبارہ ترقی پر ڈالنا ہے، ترقیاتی بجٹ پر درست طور پر عمل ہو تو  شرح نمو کا ہدف حاصل کر لیں گے، آئی ایم ایف کا خیال ہےکہ شرح نمو 4 فیصد ہو سکتی ہے، قرضوں پر سود کی ادائیگی سب سے بڑا بوجھ ہے، 4 سال میں قرض بھی دگنا ہوگیا اور شرح سود بھی 21 فیصد ہوگئی، شرح نمو  بہتر ہوگئی  تو  روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اب معاشی قوت بھی بننا ہے، میرے نزدیک معاشی استحکام ہو چکا، اب ہم نے شرح نمو بڑھانے کی طرف جانا ہے، زرعی قرض کے لیے 2250 ارب روپے  رکھے ہیں، 50 ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کریں گے، بیجوں  کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر رہے ہیں، ملک میں زرعی انقلاب لائیں گے۔

 وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایس ایم ایز کے لیےاسکیم تیار کی جا رہی ہے،  بزنس اور زراعت کے قرضوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے، آئی ٹی سیکٹر کے لیے خصوصی اکنامک زونز جلد مکمل کریں گے، زراعت کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات سے فوڈ سکیورٹی بڑھےگی، ایگرو زرعی ایس ایم ایز کو سستے قرض فراہم کریں گے۔

اسحاق ڈار نے بتایا کہ سولر پاور کو سستا کرنے کے اقدامات کیے گئےہیں، آٹا گھی دالوں پر سبسڈی کے لیے 35ارب روپے بجٹ میں مختص کیے ہیں، آٹا،گھی، دالوں پر سبسڈی کی سہولت یوٹیلیٹی اسٹورز  پر مہیاہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں یوریا کھاد کی قیمت عالمی مارکیٹ سے کم ہے، ملک میں یوریا کی مقامی پیداوار  بڑھانےکے لیے اقدامات کر رہے ہیں، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو سستے قرض فراہم کریں گے، ایس ایم ایز کے لیے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی شروع کریں گے، ترسیلات زر بڑھانےکے لیے نئے اقدامات کریں گے۔

اسحاق ڈار کاکہنا تھا کہ ٹیکس بڑھانے سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا، نئے ٹیکس اقدامات صرف 200 ارب روپے کے ہیں جن میں 175 ارب روپے کے ڈائریکٹ ٹیکس ہیں، 9200 ارب روپے کا ٹیکس ہدف حساب کتاب سے رکھا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ آپ ٹھیکیدار لائیں جو 12 ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کر دے ،ایف بی آر کو ایک سال کی چھٹی پر بھیج دیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا  کہ پلان بی پر پبلک میں بات نہیں ہوسکتی، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرےگا، پاکستان کی آبادی کی شرح خطرناک ہے، بڑھتی آبادی ترقی کی کوششوں کو کھا جائےگی، 

پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ کے بعد تجاویز کو ڈیل کرنےکے لیے کمیٹی بنائی جارہی ہے، پرائیوٹ پبلک سیکٹرکو لےکر چلنے سے ملک کا پہیہ چلےگا، ایف بی آر کی کلیکشن 12,163 ارب روپے ہے، ایس ڈی پی میں ہیلتھ، ایجوکیشن سوشل سیکٹر اور ٹرانسپورٹ کے لیے بجٹ رکھا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے بتایا کہ بجٹ میں1074ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے، اس میں 900 ارب روپے صرف پاور سیکٹر کے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں بڑے مسائل سبسڈی کے ہی تھے۔

اسحاق ڈار نے بتایا کہ انڈسٹری میں ونڈ فال منافع ہوتا ہے تو اس پر ٹیکس عائد کیا ہے، سپر ٹیکس بھی سوچ سمجھ کر لایا گیا۔

وزیر خزانہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ بجلی سبسڈی کا ایشو حل ہو گیاہے، قومی بچت پر شریعہ کے مطابق بچت اسکیم یکم جولائی سے لاگو ہوگی۔

اک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جنرل الیکشن میں ایک سال توسیع کی کا کوئی بیان حکومت نے نہیں دی۔