اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی کرپشن کیس میں گرفتاری کو صحیح قرار دے دیا

Islamabad High Court, Verdict, PTI, Imran Khan, NAB Case, Qadir Trust Corruption Case, City42
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی کرپشن کیس میں گرفتاری کو صحیح قرار دے دیا
Islamabad High Court, Verdict, PTI, Imran Khan, NAB Case, Qadir Trust Corruption Case, City42
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی کرپشن کیس میں گرفتاری کو صحیح قرار دے دیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائیکورٹ  نے سابق وزیراعظم عمران خان کی قادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں نیب کے وارنٹ گرفتاری کےتحت گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری کا نوٹس لیا تھا اور کیس پر فوری سماعت کی تھی۔

عدالت نےمنگل کی شام ہنگامی سماعت کر کےفیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو  کچھ گھنٹے بعد سنا دیا گیا ہے اور عمران خان کی گرفتاری کو  قانون کے مطابق صحیح  قرار دے دیا گیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلہ میں رجسٹرار ہائی کورٹ کو ہائی کورٹ کی حدود میں وکلا کےساتھ بدسلوکی کی شکایات کےضمن میں ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دیا اور سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ رجسٹرار ہائیکورٹ انکوائری کرکے 16 مئی تک رپورٹ جمع کرائیں۔قبل ازیں سماعت میں عدالت نے سیکرٹری داخلہ کی عدم حاضری پر نارضگی کا اظہار کیا تھا۔

خیال رہے کہ  قومی احتساب بیورو (نیب) کے قادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں یکم مئی کو جاری کئے گئےوارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لئےنیب کے حکم پر رینجرز  کی بھاری نفری نےسابق وزیر اعظم عمران خان کو منگل کی دوپہر اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتارکرلیا تھا۔

اس گرفتاری کے دوران ہائی کورْٹ کے انتظامی دفاتر میں بعض وکلا اورگرفتاری کے لئے آنے والے رینجرز کے درمیان ہاتھا پائی کے واقعات رپورٹ ہوئے ۔ ان واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس عامر فاروق کیانی نے ابتدا میں بہت سخت ردعمل ظاہر کیا اورر آئی جی پولیس، سیکرٹری داخلہ، اٹارنی جنرل اور متعدد دیگر حکام کو طلب کر لیا۔ 

چینل 24 کی رپوررٹنگ ٹیم کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سابق وزیراعظم عمران خان کی القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں نیب کے حکم پر رینجرز کے ہاتھوں  گرفتاری کے خلاف ان کے وکیل کی درخواست پرہنگامی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ کیا ہوا ہے ؟ آئی جی اسلام آباد، سیکریٹری داخلہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل فوری پیش ہوں‌، مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہائیکورٹ کے شیشے توڑے گئے ہیں، مجھے پتہ چلا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو مارا گیا ہے، میں تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں لیکن عمل نہ ہوا تو میں ہر ایک کے خلاف کارروائی کروں گا، میں وزیر اور وزیراعظم کے خلاف بھی کارروائی کروں گا، فوری طور پر بتایا جائے کس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔  چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو 15 منٹ میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔

سماعت کا دوربارہ آغاز ہوا تو ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی اسلام آباد آگئے ہیں، سیکرٹری داخلہ کچھ دیر میں پیش ہو جاتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے سیکرٹری داخلہ فوری عدالت میں چاہئیں، جس طرح عمران خان کو گرفتار کیا گیا وہ نیب تو نہیں تھی۔ 

 آئی جی اسلام آباد نے موقف اپنایا کہ نیب اپنی معاونت کیلئے کسی بھی ادارے کو کہہ سکتی ہے۔ چیف جسٹس آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہو کر آئی جی صاحب یہ کیا ہوا ہے؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ عمران خان کو کرپشن پر نیب نے گرفتار کیا ہے، نیب نے اسلام آباد پولیس کو وارنٹ بھیجا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عمران خان کو اسلام آباد سے گرفتار کرنا تھا ؟ جس پر آئی جی نے کہا کہ نہیں، عمران خان کو ہائیکورٹ سے گرفتار نہیں کیا گیا۔

 چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب سب کچھ قانون کے مطابق ہونا چاہئے، اگر کچھ خلاف قانون ہوا تو میں سب کے خلاف کارروائی کرونگا۔

 بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے سر پر لوہے کا راڈ مارا گیا۔ خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ جب ضمانت کی درخواست دائر ہو جائے تو ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، آج عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا گیا ہے، نئے قانون کے مطابق نیب انکوائری سٹیج پر کسی کو گرفتار نہیں کر سکتا، انوسٹی گیشن میں بھی گرفتاری تب ہو سکتی ہے جب ملزم بار بار پیش نہ ہو، ابھی کچھ دن پہلے تو القادر ٹرسٹ کیس کو انکوائری سے انوسٹی گیشن میں تبدیل کیا گیا۔

وکیل علی بخاری نے کہا کہ میری آنکھوں میں سپرے کیا گیا اور میں نیم بے ہوش ہو گیا، میں نے بڑے باعزت طریقے سے وکالت کی ہے، میں عمران خان کے ساتھ بائیومیٹرک روم میں گیا، رینجرز اہلکاروں نے بائیومیٹرک کمرے میں آنے کی کوشش کی، پولیس اہلکاروں نے دروازے نہیں کھولے تو انہوں نے شیشے توڑ دیئے۔

 فیصل چودھری نے عدالت کو بتایا کہ یہ اس ہائیکورٹ پر حملہ ہوا ہے، عدالت عمران خان کو واپس طلب کر کے اپنا وقار بحال کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی کارروائی کرنی ہے تو قانون کے مطابق کرنی ہوگی۔

 چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ کہاں رہ گئے ہیں ؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ راستے بند ہیں اور شیلنگ ہو رہی ہے اس لئے وہ لیٹ ہو رہےہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں بھی تو عدالت میں پہنچ ہی گیا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ جس پر فیصل چودھری نے کہا کہ آج آپ کے غصہ کرنے کا دن ہے۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ نیب اس طرح بھی گرفتار کر سکتی ہے، اگر ایجنسی کی خدمات لی جاتی ہیں تو کیا ایسے گرفتاری ہوتی ہے؟ کیا یہ گرفتاری قانون کے مطابق ہے؟ کیا میں اس ادارے اور اپنے اوپر حملے کو ایسے ہی جانے دوں؟ میں چاہتا ہوں کہ سب یہاں آ جائیں، انکی غیرموجودگی میں کچھ نہ کر دوں۔

 ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا عمران خان کے وارنٹس جاری تھے انکو گرفتار کیا گیا۔ چیف جسٹس نے سوال پوچھا کہ وارنٹ پر عملدرآمد ہو گیا لیکن اس عدالت کے اندر ہوا ہے، مجھے اپنے آپ کو مطمئن کرنا ہو گا کہ ہائیکورٹ میں کیا ہوا۔

 اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو بھی طلب کر لیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا رینجرز کس کے ماتحت کام کرتی ہے ؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہے، نیب خودمختار ادارہ ہے، اور وہ کسی بھی ادارے کی خدمات لے سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب خود مختار ہے لیکن رینجرز تو وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔

 وکی خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان اسی کیس میں اسی عدالت میں بائیومیٹرک کرانے بیٹھے تھے، یہ نہیں ہو سکتا کہ گرفتار کر لیا تو اب بات ختم۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار بار ہائیکورٹ کے احترام سے متعلق بات کی جا رہی ہے، بار روم یا پارکنگ کو ہائیکورٹ نہیں کہنا چاہئے۔

 ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے جملے پر پی ٹی آئی وکلاء نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ فواد چودھری نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپکو شرم آنی چاہئے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وکلاء کے ساتھ جو ہوا میں اسکی مذمت کرتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ باقی جو ہوا اسکا کیا کریں ؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آئی جی کو انکوائری کا حکم دیدیں، مجھے پہلے پتہ تو کرنے دیں میرے اہلکار کتنے زخمی ہیں۔

  ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کے عدالت پیش ہونے پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ صاحب، یہ کیا ہوا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان طریقہ کار کے مطابق آج نہیں تو کل گرفتار ہو جائیں گے، یہ کوئی طریقہ نہیں جس طرح عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔

ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کے عدالت پیش ہونے پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ صاحب، یہ کیا ہوا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان طریقہ کار کے مطابق آج نہیں تو کل گرفتار ہو جائیں گے، یہ کوئی طریقہ نہیں جس طرح عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔

  ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز کی تو یہاں سٹینڈنگ ڈپلائی منٹ ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عمارتیں تو دوبارہ تعمیر ہو سکتی ہیں لیکن عدالت کی تکریم کی بات ہے، اگر عزت و تکریم ختم ہو جائے تو ہر چیز بے معنی ہو جائے گی۔

 وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آئین سپریم ہے کوئی رولز آف گیم تو ہونگے، آئین کی کونسی شق ہے جس کے تحت عمران خان کی زندگی کو خطرے میں ڈالا گیا، یہ شخصیات نہیں بلکہ رول آف لاء کا معاملہ ہے۔ عدالت نے ڈی جی نیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو طلب کرلیا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق سماعت  کے دوران جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ شیلنگ ہو رہی ہے اس لیے ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نہیں پہنچے تو  چیف جسٹس عام فاروق کیانی نے کہا کہ میں غصے نہیں ہوتا لیکن میرے صبر کا امتحان نہ لیں۔ وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ آج غصے کا دن ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ نیب کسی کو اس طریقے سے بھی گرفتار کر سکتی ہے؟ کورٹ اسٹاف، وکلا، پولیس، عام لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ کیا ہے؟ کیا یہ گرفتاری قانونی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو کچھ ہمارے وکلا کے ساتھ جو ہوا وہ درست نہیں، باقی وارنٹ پر عمل درآمد ہوا ہے اس پر عدالت نے کہا کہ جس طریقے سے عمل درآمد کیا گیا، کیا یہ پروپر ہوا؟ وکلا پر حملہ  میرے اوپر حملہ کیا ہے یہ؟ عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے یہ اتنا سادہ نہیں اس لیے مجھے دیکھنا ہے، مجھے اپنے آپ کو مطمئن کرنا ہے، عدالت کے احاطے سے یہ گرفتاری ہوئی ہے۔

ایک موقع پر وکیل نعیم حیدر پنجھوتہ نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ آپ کے پاس اختیار ہےعمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیا جائے، ہمارے پاس ویڈیوز ہیں، یہ عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش تھی، 45 سال میں اس پیشے کے دوران کبھی نہیں دیکھا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری ہوجائے۔

اس پر یڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار روم اور پارکنگ کو کیا کورٹ سمجھا جائے گا؟ 

عدالت نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ انکوائری کب انویسٹی گیشن میں تبدیل ہوئی اور کیا اس کا ریکارڈ ملزم کو دیاگیا ہے؟۔ جواب شروع ہونے پر عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو میرٹ پر بات کرنے سے روکا اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے آج صرف اتنا دیکھنا ہے کہ گرفتاری قانونی طور پر درست ہوئی۔

نیب پرایسکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عمران خان کو چوبیس گھنٹے کے اندر ہم نے ٹرائل کورٹ میں پیش کرنا ہے جس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ابھی معلوم ہوا کہ یہ بشریٰ بی بی کو بھی گرفتار کرنے گئے تھے، ہم نے آج اُن کی پٹیشن یہاں دائر کی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ کو نیب کی جانب سے کوئی سفارش موصول ہوئی، اس پر ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے عدالت سے مہلت مانگی اور کہا کہ میں تصدیق کے بعد ہی بتا سکتا ہوں۔

آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ رینجر کے ایکشن کے حوالے سے علم میں تھا، اسلام آباد پولیس کی موجودگی میں رینجرز نے وارنٹس کی تعمیل کروائی۔

دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو کچھ گھنٹے بعد منگل کی شب ہی سنا دیا گیا۔۔