(آپ ہر ہفتہ، اتوار خاور نعیم ہاشمی کی کہانی پڑھ سکتے ہیں)
پاکستان میں معصوم بچوں کے خلاف جنسی جرائم اور انہیں قتل کرنے کے بعد لاشیں ویرانوں میں پھینک دینے کا رحجان جس تیزی سے بڑھ رہا ہے،اس سے والدین عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے معاشرے کی گلیوں محلوں میں یہ معصوم ٹولیاں بنا کر کھیلا کرتے تھے،اور آج وہ وقت ہے کہ ماں باپ بچے کو اکیلا گھر سے نکلنے کو خطرہ تصور کرتے ہیں۔
پاکستان میں بچوں کے خلاف ایسے ایسے بہیمانہ جرائم ہوئے جن پر ہالی ووڈ میں درجنوں تاریخ ساز فلمیں بنائی جا سکتی ہیں۔ ایسے واقعات سانحہ قصور کے بعد ہی منظر عام پر نہیں آئے، سیکڑوں ہزاروں حادثات ایسے ہیں جو میڈیا پر کبھی رپورٹ ہی نہ ہوئے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں والدین اس خوف اور خدشے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ خاندان میں بدنامی ہوگی، محلے دار کہانیاں بنائیں گے، بات پھیلی تو بچہ عمر بھر کے لیئے نفسیاتی مریض بن جائے گا۔
ہمارے معاشرے میں یہاں تک ہوتا ہے کہ اگر کسی بچے کے ساتھ اس قسم کا کوئی سانحہ ہو جائے تو والدین اپنے بچے کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور متاثرہ بچہ اپنے ہی ماں باپ کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اس طرح درندوں کے ہاتھوں مسلے جانے والے ان پھولوں کا مستقبل تاریکیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ اور یہ بچے منفی راستوں پر گامزن ہوجاتے ہیں،جرائم پیشہ بن جاتے ہیں، چوریاں اور جیب تراشیاں تک کرتے ہیں اور پھر اس عمل کو خود دہراتے ہیں جو ان کے ساتھ ہو چکا ہوتا ہے۔
دو دہائیاں پہلے ایک ایسی ہی کہانی منظر عام پر آئی تھی ، جسے شاید دنیا میں بچوں کے خلاف جرم کی سب سے بڑی کہانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ہمارا کمزور ریاستی ڈھانچہ ہمیشہ سے سماجی جرائم پر پردے ڈالتا رہا ہے۔ یوں ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ ریاست بچوں کے خلاف جرائم کی سرپرستی کرتی چلی آرہی ہے۔
میں دو دہائیاں پہلے کے جس واقعہ کو کہانی کی شکل میں پیش کرنے جا رہا ہوں،اس میں میرا بھی ایک کردار ہے۔ کیونکہ 100 سے زیادہ بچوں کو باری باری زیادتی کے بعد قتل کرنے والے مجرم جاوید اقبال نے خود کو میرے سامنے سرینڈر کیا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ میں جس میڈیا گروپ کا ایڈیٹر تھا وہاں ایک بھاری بھرکم خط بھجووایا گیا، خط اتنا زیادہ وزنی تھا کہ کسی نے اسے کھول کر پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی، یوں یہ خط سفر کرتا کرتا ایک دن میرے میز پر آگیا۔ میں نے تجسس سے اسے دیکھتے ہی کھول لیا۔
خط کیا کھولا کہ میرے کیبن میں چاروں طرف تصویریں ہی تصویریں بکھر گئیں، یہ نو عمر بچوں کی پاسپورٹ سائز تصاویر تھیں جن کی تعداد 101 تھی۔ لفافے مین ان تصویروں کے ساتھ ایک رقعہ بھی تھا ،جس کا متن اس طرح تھا۔ " میرا نام جاوید اقبال ہے، ایک بہت بڑا مجرم ہوں، آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اب تک 100 سے زیادہ بچوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کر چکا ہوں، اب ان جرائم کی وجہ سے مجھے میرا ضمیر جھنجھوڑنے لگا ہے۔ میں اپنے سارے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں تاکہ مجھے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ میں پولیس کے پاس اس لیئے نہیں جا رہا کہ جانتا ہوں کہ وہ مجھے مقابلے میں مار دیں گے اور میری کہانی دنیا کے سامنے نہیں آسکے گی" خط کے آخر میں جاوید اقبال نے اپنا موبائل نمبر لکھا ہوا تھا۔
میں نے آفس میں اس خط کا کسی سے ذکر کیے بغیر اس کا موبائل نمبر ڈائل کردیا۔ اپنا تعارف کرایا اور اسے آفس آنے کی دعوت دی، جاوید اقبال نے کہا کہ وہ دو گھنٹے بعد میرے پاس پہنچ جائے گا، صحافتی دنیا کا سب سے بڑا SCOOP میرے ہاتھوں لگنے والا تھا، میں ایک ایک چیز کے بارے میں سوچ رہا ہوں، آفس کی سیڑھیاں اتر کر استقبالیہ پر گیا اور وہاں موجود ایک شخص کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ دو گھنٹے بعد ایک شخص یہاں آئے اور اپنا نام جاوید اقبال بتائے گا، وہ مجھ سے ملنے آرہا ہے۔ لیکن اسے اوپر بھیجنے کی بجائے مجھے نیچے بلوالیں، میں اسے خود لے کر جاؤں گا۔
استقبالیہ پر موجود اس شخص نے کئی لوگوں کو یہ بات بتادی کہ " خاور صاحب سے کوئی خاص آدمی ملنے آرہا ہے" ۔ جاوید اقبال جنگ آفس پہنچ گیا اس کے ساتھ دو صحت مند لڑکے بھی تھے جن میں سے ایک کی عمر تقریباً 14 سال اور دوسرے کی عمر 11 سال کے قریب ہوگی . جب میں جاوید اقبال کو لے کر اپنے کیبن کی طرف جا رہا تھا تو نیوز روم اور رپورٹنگ سیکشن میں موجود تمام ساتھیوں کی نگاہیں مجھ پر تھیں۔
میں نے جاوید اقبال کو ایک کرسی پر بٹھایا، اس کے ساتھ دو لڑکے بھی آئے تھے،ایک بارہ تیرہ سال کا دوسرا سولہ سترہ برس کا،، یہ دونوں بچے قتل ہونے سے بچ کر اس کے ساتھی اور مددگار بن گئے تھے، میں نے اپنے ادارے کے سینئر کرائم رپورٹر کو بلوایا اور مختصر اً اسے بتا دیا کہ ہمیں اس شخص کو پولیس کے حوالے کرنا ہے لیکن اس ضمانت پر کہ اسے مقابلے میں پار نہ کردیا جائے۔ پتہ نہیں کیسے پورے دفتر میں یہ بات پھیل گئی کہ خاور صاحب کے کیبن میں جو آدمی بیٹھا ہے وہ 100 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا اعتراف کرنے آیا ہے۔ اور پھر وہاں لاہور پولیس کی ایک بڑی نفری بھی آگئی، میں نے صرف ایک پولیس اہلکار کو اپنے روم میں آنے کی اجازت دی، تاکہ میں جب جاوید اقبال سے گفتگو کروں تو وہ گواہ رہے۔
جاوید اقبال نے شلوار قمیض کے ساتھ سویٹر پہن رکھا تھا۔ سویٹر کے کالر اور جیبیں (POCKETS) بھی تھیں۔ اس کے پاوْں میں پشاوری چپل تھی اور اس نے جرابیں بھی پہن رکھی تھی۔ میں جوں جوں اس کی تلاشی لے رہا تھا، اس کے پورے جسم کے ہر ہر حصے سے نیند کی گولیاں برآمد ہو رہی تھیں، جو سیکڑوں کی تعداد میں تھیں۔ میں نے فوراً فوٹو گرافر کو بھی بلوا لیا اور تلاشی لیتے ہوئے تصویر بھی بنوائی(یہ تصویر آپ اس کہانی کے ساتھ دیکھ سکیں گے) ۔ اس کی شلوار کے پورے نیفے میں بھی پیلے رنگ کی سلیپنگ پلز بھری ہوئی تھیں۔ اس کی جرابیں بھی گولیوں سے بھری تھیں۔
میرے استفسار پر جاوید اقبال نے بتایا کہ اس نے یہ انتظام اس لیئے کر رکھا ہے کہ اگر گرفتاری کے بعد مجھے تشدد کا نشانہ بنایا جائے تو میں خودکشی کرلوں۔ اسی دوران میرے موبائل کی گنٹی بجتی ہے، دوسری طرف والے کا نمبر نمودار نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی سرکاری ایجنسی کا نمبر ہے۔ میں نے ہیلو کیا تو دوسری طرف سے کہا گیا "خاور صاحب! میں جنرل خالد شمیم وائیں بول رہا ہوں، ہمیں پتہ چلا ہے کہ ایک ایسا آدمی آپ کے پاس ہے جو کہتا کہ اس نے 100 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا ہے" میں نے جواب دیا کہ "وہ میرے پاس ہے"۔
جنرل صاحب نے کہا کہ آپ اسے پولیس کے حوالے نہ کرنا ورنہ وہ اسے مار دیں گے اور یہ کیس ختم ہو جائے گا۔ تھوڑی دیر بعد فوج کی بڑی نفری ڈیوس روڈ پہنچ گئی۔ میں نے اس سے پہلے 100 بچوں کے قاتل سے جو گفتگو کی اس میں اس کا کہنا تھا کہ وہ گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کو لاری اڈے،ریلوے اسٹیشن اور داتا دربار سے بہلا پھسلا کر لے جاتا تھا، انہیں فلم دکھاتا تھا، کھانا کھلاتا تھا پھر اپنے گھر لے آتا تھا۔
زیادتی کے بعد وہ بچوں کو قتل کر کے لاشیں ایک جہازی سائز کے ڈرم میں پھینک دیتا تھا جن مں تیزاب بھرا تھا۔ لاشیں گل جاتی تھیں اور ہڈیاں ڈرم کے نیچے بیٹھ جاتی تھیں۔ جاوید اقبال شادباغ کے ایک گنجان آباد علاقے میں رہتا تھا۔ جہاں بے شمار چھوٹے چھوٹے مکانات تھے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ کرتا رہا لیکن کسی محلے دار کو کبھی اس پر شبہ نہ ہوا۔ آرمی نے انوسٹی گیشن کے بعد اس کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیئے اسے پولیس کے حوالے کردیا۔ ڈسٹرکٹ سیشن جج اللہ بخش رانجھا نے اس کیس کا عجیب و غریب فیصلہ سنادیا۔
فیصلہ یہ تھا کہ مجرم کو مینارپاکستان کی آخری منزل سے نیچے دھکا دے دیا جائے ، جب اس کی لاش زمین پر گرے تو چیلیں اور کوے خود اس کا جسم نوچ لیں گے۔ ڈسٹرکٹ سیشن جج نے مجرم کو مزید 700 سال قید کی بھی سزا سنائی تھی۔ یہ ایک ناقابل عمل فیصلہ تھا،ناقابل عمل سزا تھی۔ مجرم کو کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا،جہاں سے چند دنوں بعد(8 اکتوبر 2001) خبر آئی کہ اس نے اپنی کوٹھری میں خودکشی کر لی ہے۔
متعلقہ رپوٹرز کا کہنا تھا کہ اس نے خودکشی نہیں کی اسے مار دیا گیا ہے۔ فیصلہ سنانے والا ڈسٹرکٹ سیشن جج اللہ بخش رانجھا میرے ساتھ وکی رضائیاں والے شیخ اعجاز کے ڈیرے پر بیٹھا کرتا تھا۔ بعد میں اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے کہا" رانجھے یار تجھے جج کس نے بنایا؟ تم تو انتہائی بے وقوف اور بے ہودہ شخص ہو". جب پولیس نے جاوید اقبال کے گھر کی تلاشی لی تو وہاں سے بچوں کے سو سے زیادہ جوتوں کے جوڑے، کپڑے اور جرابیں وغیرہ برآمد ہوئیں تھیں۔ اور تقریباً تمام بچوں کے والدین نے اپنے اپنے بچوں کی نشانیاں پہچان لی تھیں۔ جب محلے داروں سے پوچھا گیا کہ انہیں ان وارداتوں کا علم کیوں نہ ہوا؟ وہ نئے نئے لڑکے گھر میں لاتا رہا کسی نے بھی اس سے اس بارے میں کبھی کیوں نہ پوچھا؟ محلے داروں کا جواب تھا کہ" جاوید اقبال نے محلے میں کسی سے سلام دعا ہی نہیں رکھی ہوئی تھی، وہ کسی سے ملتا جلتا بھی نہیں تھا"۔
نوٹ۔۔۔۔ اس کہانی کو بلا اجازت شائع کرنا، ڈرامہ سیریل یا دستاویزی اور فیچر فلم بنانا جرم کے زمرے میں آئے گا