سٹی 42: سی ایس ایس کے امتحانات میں نئے ریکارڈز بن رہے ہیں،حالیہ نتائج میں کامیاب ہونے والے افراد کا اجتماعی اور انفرادی ذکر ہوا، بلوچستان کی ایک خاتون امیدوار اور دو گھرانے ایسے تھے جن کے افراد کی کامیابی کو بہت سے سراہا جارہا ہے۔ سی ایس ایس 2019 کے نتائج میں سرفہرست رہنے والے رانا حیدر طاہر تیسرے بھائی ہیں جو سول سروس کا امتحان پاس کر کے اس شعبے کا حصہ بنے ہیں۔ اس سے قبل ان کے دو بڑے بھائی رانا موسیٰ طاہر اور رانا حسین طاہر سی ایس ایس میں کامیابی کے بعد اپے شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
اسی طرح خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور سے تعلق رکھنے والے ملک رفیق اعوان کے گھرانے کی پانچویں بیٹی زوہا ملک شیر بھی کامیاب امیدواروں کی فہرست کا حصہ بنیں۔ ان سے قبل چار بڑی بہنیں لیلیٰ ملک شیر، شیریں ملک شیر، سسی ملک شیر اور ماروی ملک شیر کامیابی حاصل کر کے مختلف مقامات پر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں۔اب ایک ایسی لڑکی بھی سامنے آئی ہے جو اپنا منفرد مقام رکھتی ہے، سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہونیوالی اس لڑکی کا نام رابیل کینیڈی ہے،اس کا تعلق پاکستان کی اقلیتی برادری سے ہے۔
صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے رہائشی اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ڈرائیور کی خدمات انجام دینے والے مسیحی جان کینیڈی کی بیٹی رابیل کینیڈی تربیت مکمل کرنے کے بعد پاکستان کی فارن سروس یا وزارت خارجہ میں خدمات انجام دیں گی۔پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کے مطابق رابیل کینیڈی مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والی ملک کی پہلی خاتون سی ایس ایس افسر ہوں گی جو وزارت خارجہ میں خدمات انجام دیں گی۔
رابیل کینیڈی نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاپا ایف بی آر میں ڈرائیور ہیں۔ وہ کئی کئی گھنٹے کام کر کے جب شام کو گھر آتے تو ہمیشہ کہتے کہ میں سارا دن اپنے افسروں کے لیے گاڑی کے دروازے کھولتا اور بند کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے یہ کام کریں بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے پڑھیں، خوب پڑھیں، پڑھ لکھ کر افسر بنیں اور ملک و قوم کی خدمت کریں۔یہ وہ الفاظ ہوتے تھے جنھوں نے مجھے کچھ کرنے کا حوصلہ دیا، محنت اور انتھک محنت کرنے پر ابھارا۔ جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
میرے پاپا پڑھے لکھے نہیں ہیں مگر زندگی کے حوالے سے بہت بامقصد ہیں۔ میرا بچپن عام سا تھا مگر مجھے بچپن میں زیادہ کھیل کود کا شوق نہیں تھا اور میری زیادہ دلچسپی پڑھائی کی جانب تھی۔میں نے ہمیشہ تقریری مقابلوں میں حصہ لیا اور انعامات جیتے ہیں۔ میری تقریر کئی سال تک میرے پاپا تیار کیا کرتے تھے۔جس بھی موضوع پر تقریر ہوتی وہ اس کا خاکہ بناتے، میں اس کو لکھتی اور پھر جب سکول جا کر اساتذہ کو سناتی تو مجھے منتخب کرلیا کرتے تھے۔ میں نے بچپن ہی سے فیصلہ کرلیا تھا کہ مجھے کچھ کرنا ہے۔ بس اسی کے بارے میں ہمیشہ سوچتی رہتی تھی۔
ہم پانچ بہن بھائی ہیں، سب کے سب پڑھ رہے تھے۔ پاپا ہر صورت میں اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے مگر ظاہر ہے کہ معاشی مسائل تھے۔ فیسیں اور دیگر اخراجات بہت زیادہ ہوتے تھے۔ ایسے میں جب میں 18 سال کی تھی اور ایف ایس سی کی تو میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے پاپا کا بازو بننا ہے۔اس کے لیے میں نے اپنے ہی سکول میں بحیثیت ٹیچر نوکری کے لیے درخواست دی۔ میں نے میٹرک تک تعلیم اسی سکول سے حاصل کی تھی جس پر انھوں نے مجھے منتخب کرلیا۔ آغاز میں مجھے 12 ہزار اور اب مجھے 24 ہزار تنخواہ ملتی ہے۔ میں صبح سے دوپہر دو بجے تک سکول میں فرائض ادا کرتی رہی اور اس کے ساتھ ایک نجی کالج سے پرائیوٹ طور پر اپنی تعلیم جاری رکھی۔
گریجویشن کے بعد ایم ایس سی کرنے کے لیے شام کی کلاسز میں داخلہ لیا۔ اب یہ ایک اور سخت محنت کا دور تھا لیکن میں نے اپنی منزل واضح کرلی تھی کہ مجھے سی ایس ایس کرنا ہے اور عزم تھا کہ ہر صورت میں کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیکھیں سی ایس ایس کا امتحان مذاق نہیں ہے۔ بالکل بھی نہیں، اس کے لیے تیاری کی ضرورت پڑتی ہے۔ میں تو صرف محنت کر رہی تھی مجھے تو کچھ پتا نہیں تھا کہ امتحان میں کیا آتا ہے۔ میں تو صبح گھر سے نکلتی تھی شام کو واپسی ہوتی تھی۔ میں پوری طرح پڑھائی اور اپنی ملازمت پر فوکس تھی۔ یہاں تک کہ مجھے تو یہ بھی نہیں یاد کہ کبھی میں نے اپنے لیے کوئی خریداری کی ہو۔یہ خریداری بھی مما کرتی تھیں۔ رات کو مجھے بتا دیا کرتی تھیں کہ میں نے صبح کون سے کپڑے پہننے ہیں۔ وہ میں پہن لیتی تھی۔ ہمارے طبقے میں میری عمر کی بیٹیوں سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ ہم اپنی ماؤں کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹائیں۔ میرے پاس تو گھر کا کام کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا تھا جبکہ میری مما اس موقع پر خود سارا کام کرتیں اور مجھے آرام اور پڑھائی کا موقع فراہم کرتی تھیں۔
رابیل کینیڈی نے کہا ہے کہ مجھے اپنی کامیابی کے بعد اس بات کا یقین ہو گیا کہ جب کوئی بندہ خود محنت کرنا شروع کردے تو پھر قدرت بھی اس کی ایسے مدد کرتی ہے کہ بندہ خود حیران ہو جاتا ہے اور ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔