سپریم کورٹ نے صحافیوں کیخلاف نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دے دیا

سپریم کورٹ نے صحافیوں کیخلاف نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دے دیا
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو  ججز پر تنقید کی وجہ سے بھیجے گئے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم جاری کر دیا۔

صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوئی۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کتنے کیسز ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ چار درخواستیں ہیں جن میں قیوم صدیقی اور اسد طور درخواست گزار ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا قیوم صدیقی بتائیں کیس خود چلانا ہے یا صدر پریس ایسوسی ایشن دلائل دیں گے؟ جس پر عبدالقیوم صدیقی نے کہا میں کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر دو میں لیا لیکن معاملہ 5 رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیےچلا گیا، 5 رکنی بینچ نے طے کیا 184 تین کا ازخود نوٹس لینےکا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے، صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا عبدالقیوم صدیقی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اس کیس کو چلانا نہیں چاہتے، جس پر عبدالقیوم صدیقی نے کہا جب معاملہ جسٹس اعجازالاحسن کے بینچ میں گیا تو کہا تھا کہ کیس نہیں چلانا چاہتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صحافیوں کی شکایت کو دیکھا ہی نہیں گیا تھا، سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021 سے سرد خانے میں رکھ دیا، عبدالقیوم صدیقی بتائیں کہ تب کیا درخواست تھی آپ کی اور اب کیا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا یا تو سرکار کہتی ہے کہ آرٹیکل 19 پر عمل نہیں کرانا یا داد رسی کرتی، بنیادی حقوق کو زندہ رکھیں یا پھر یہ صرف محض کاغذ پر تحریر سمجھیں، یہ کیس دفن ہونے کے ساتھ تو بنیادی حقوق بھی دفن ہو گئے، میں تو اپنے ادارے پر پہلے بات کروں گا، کب تک ماضی کی غلطیاں دہرائیں گے؟ مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے میری غلطی معلوم ہو گی۔

صحافی عبدالقیوم صدیقی نے کہا میں نے تو کہا تھا کہ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں، جیسے یہاں مسئلہ رکھا ایسے ہی سابق چیف جسٹس گلزار احمد کےپاس بھی جانا چاہا تھا، سابق چیف جسٹس گلزاراحمد کے پاس بھی جانا چاہا تھا لیکن اجازت نہیں دی گئی، چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا بس سابق چیف جسٹس پر تنقید نہیں کرنی موجودہ پر کرنی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا یہ شکایتیں سماعت کے لیے مقرر کیوں نہیں ہوتیں، دنیا میں زندہ قومیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھتی ہیں، زندہ قومیں ماضی سے سیکھتی ہیں اور ہم کہتے ہیں بس آگے بڑھو مٹی پاؤ۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ایف آئی اے نے بھی بس رپورٹ دے دی تھی کہ کسی صحافی کے خلاف کارروائی نہیں چل رہی، ایف آئی اے نے پرانی کارروائیوں پر کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا اسد طور سے پوچھیں کہ کیا وہ لوگ پکڑے گئے جنہوں نے انہیں مارا تھا؟ اسد طور کیا آپ ان لوگوں کی شکلیں پہچان سکتے ہیں؟

اسد طور نے کہا جنہوں نے تشدد کیا وہ پکڑے نہیں گئے تھے،آج بھی دیکھ کر پہچان سکتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا تشدد کرنے والوں کے اسکیچ بنائے گئے تھے؟ اسد طور نے بتایا اسکیچ بنا تھا لیکن جیو فینسنگ نہیں ہوئی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا اسد طور کا کیس سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے یا ابھی بھی چل رہا ہے؟ اٹارنی جنرل اسد طور کے کیس سے متعلق جامع اور مفصل رپورٹ دیں۔

اسد طور نے کہا میں ازخود نوٹس کی پیروی کرنا نہیں چاہتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نا کریں لیکن ہم خود اس کیس کو دیکھیں گے۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے صحافیوں پر مقدمات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں مطیع اللہ جان، اسد طور، عامر میر، شفقت عمران کے علاوہ کون سے مقدمات ہیں، صحافیوں پر جو ایف آئی آرز ہوئیں اس کا ریکارڈ دیا جائے، جو صحافیوں نے ایف آئی آرز کرائیں ان کا بھی سارا ریکارڈ دیا جائے، ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی پولیس جیسے افسران سے تفصیلات لی جائیں۔

Ansa Awais

Content Writer