اراضی کے حصول سے متعلق عدالت کا بڑا فیصلہ

Lahore High Court On land accusation case
کیپشن: Lahore High Court
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ملک اشرف: لاہور ہائیکورٹ کا اراضی کے حصول سے  متعلق بڑا فیصلہ جاری  کردیا،عدالت عالیہ  نے 128 سال پرانے زمین حاصل  کرنے کے قانون میں ترامیم کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894ء آئین کے آرٹیکل 9 کی روح کے خلاف ہے۔

 جسٹس شاہد کریم نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پاکستان کو زرعی اراضی کے ضیاع کو روکنے کیلئے ایمرجنسی لگانا ہو گی، انسانی تحفظ قومی سلامتی پالیسی کا دل ہونا چاہئے، حکومت لینڈ ایکوزیشن ایکٹ میں کھیتی باڑی اور زرعی زمینوں کی کیٹیگری سے وضاحت کرے، جسٹس شاہد کریم نے روڈا پراجیکٹ کیس میں لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894ء کی دفعات کو آئین کے مطابق کرنے کا حکم دیا۔

فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں زمین صرف عوامی مفاد میں ایکوائر کی جاتی ہے، زمین ایکوائر کرنے کے بعد متاثرین کو محض معاوضہ دینا کافی نہیں، زمین ایکوائر کرنے سے جن کا کاربار متاثر ہوا ہو ان کو متبادل جگہ پر کاروبار قائم کروانا چاہئے، جن کسانوں کی کھیتی باڑی کی زمینیں ایکوائر کرنے گھر کا نظام رکا ہو محض اس کا معاوضہ بدل نہیں ہو سکتا۔

فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں کوڑے سے بھری زمینوں کو بھی قابل کاشت بنانے پر زور دیا جاتا ہے، کھیتی باڑی کیلئے زمینیں خوراک کے تحفظ کو یقینی بناتی ہیں، ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894ء میں تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے، زرعی اراضی کا تحفظ نہ صرف زندگی کا معاملہ بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ بھی ہے، زرعی اراضی ختم کرنے سے خوراک کے تحفظ کا اصول خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔

پاکستان نے گزشتہ سال 8 ارب ڈالر کی اشیاء خورد و نوش امپورٹ کیں،پاکستان خوراک کے تحفظ کی اوسطا مقدار 60 اعشاریہ 4 فیصد سے 43 اعشاریہ 5 فیصد تک جا چکا ہے، 50 برسوں سے زرعی اراضی کو ایکوئر کرنے اور شہری آبادیاں بنانے کیلئے کوئی رولز ہی نہیں بنائے گئے، فیصلہ کے مطابق زرعی اور جنگلی اراضی کی قیمت پر شہری آبادیوں کے قیام میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔

جنگل اور زرعی اراضی ختم کرنے سے ماحولیاتی، پانی اور شور کی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوا، 1972ء میں زرعی زمین 54 فیصد تھی جو 2009ء میں کم ہو کر 35 فیصد رہ گئی، آج عدالتی فیصلے تک شہر میں زرعی زمین 35 فیصد سے بھی کم ہو چکی ہو گی، 1972ء سے زرعی زمینیوں پر بلا روک ٹوک شہری آبادیوں کے قیام کا سلسلہ جاری ہے۔

Malik Sultan Awan

Content Writer