خاور نعیم ہاشمی
1982 بھی پوری قوم کے لئے مشکل ترین سال تھا، مجھے طویل بے روزگاری کے بعد روزنامہ جنگ میں دو سال پہلے ہی نوکری ملی تھی، ساری توجہ اپنے پروفیشن پر تھی، دن رات محنت کر رہا تھا، کہ اچانک ،،،ریاست کے خلاف بغاوت کا سب سے بڑا ملزم ،،،،قرار دیدیا گیا، مجھے رات کے وقت گھر سے گرفتار کیا گیا، گرفتاری کے لئے مختلف ایجنسیوں کے درجنوں اہلکار سفید کپڑوں اور پرائیویٹ گاڑیوں میں آئے
، میرے خلاف تھانہ پرانی انارکلی میں 120بی کے تحت پرچہ درج کیا گیا، مدعی ایک پولیس انسپکٹر بنا ، ایف آئی آر سیل کر دی گئی تھی، FIR کا نمبر تھا 211بٹہ 81 ، مقدمے کی سماعت کے لئے بریگیڈئیر ریاض اللہ کی سربراہی میں ایک خصوصی فوجی عدالت تشکیل دی گئی، ایک کرنل ،ایک میجر اور ایک مجسٹریٹ اس عدالت کے ممبر تھے، مجھ پر جو الزامات تھے، ان کی سزا صرف اور صرف موت تھی ، اس سے کم سزا دی جاتی تو عدالت کے لئے اس کی ٹھوس وجوہ بیان کرنا لازمی تھا، اس سے پہلے میں نہ صرف کوٹ لکھپت جیل میں مکمل برہنہ حالت میں کوڑوں کی سزا برداشت کر چکا تھا ، بلکہ سندھ اور پنجاب کی پانچ جیلوں میں مختلف دورانیہ کی قید کی سزائیں بھی بھگت چکا تھا، اپنے خلاف اس نئے مقدمے سے میں بالکل خائف نہ تھا، نثار عثمانی صاحب نے اپنی ذات میں میرے لئے ایک رکنی رہائی کمیٹی بنا رکھی تھی، جنرل ضیاء جب بھی لاہور آتا، عثمانی صاحب میری رہائی کا ایشو اس کے سامنے رکھ دیتے ، جنرل ضیاء کا ایک ہی جواب ہوتا؛؛ خاور نعیم ہاشمی صحافی نہیں ایک خطرناک دہشت گرد ہے، وہ رہا نہیں ہوگا ، اسے اس کے جرائم کی سزا ملے گی؛
اسی مقدمے میں ملک بھر سے میرے ڈھائی سو کے قریب ایسے مبینہ ساتھی بھی گرفتار کر لئے گئے جن میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جنہیں میں جانتا تک نہ تھا، مجھے لاہور کے شاہی قلعہ کے سیل نمبر تین میں بند کر دیا گیا، روزانہ ہتھکڑیاں لگا کر سیل سے نکالا جاتا، اور مختلف ایجنسیوں کی ٹیمیں باری باری مجھ سے تفتیش کرتیں، تفتیش کا طریقہ کار یہ تھا کہ مجھے اپنی پیدائش سے شاہی قلعہ پہنچنے تک اپنی ایک ایک یاد ان تفتیش کاروں کے سامنے بیان کرنا پڑتی ،اور ہر ٹیم کو وہی بات من و عن بتانا پڑتی جو دوسری ٹیموں کو بتائی جا چکی ہوتی ، یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا، مثلآ میری دو مائیں ہیں ، ان کے پانچ بھائی ہیں اور ان کے دس بیٹے اور بارہ بیٹیاں ہیں ، اور ان کے نام یہ ہیں، مجھے اپنے ماموؤں کے دو چار بچوں کے سوا دوسروں کے ناموں کا علم ہی نہ تھا، میں تفتیشی ٹیموں کو ان کے فرضی نام بتاتا اور پھر رات بھر اپنے سیل میں یہ نام ذہن نشین کرتا رہتا ، کیونکہ دوسری ٹیموں کو بھی یہی فرضی نام لکھوانے ضروری ہوتے تھے، ان پانچ تفتیشی ٹیموں کا سربراہ مظفر نامی ایک جاسوس ٹائپ افسر تھا ، جو کے ٹو سگریٹ پیتا تھا، اس کا باس تھا چوہدری سردار محمد، سابق آئی جی، جو باقاعدگی سے ساری نمازیں بھی پڑھتا تھا، مظفر انتہائی کرخت اور بدتمیز افسر تھا، وہ خود بھی روزانہ مجھ سے تفتیش کرتا، وہ مجھے غلیظ گالیاں نکالتا ، اور میرے ہاتھ جو ہتھکڑیوں میں جھکڑے ہوتے ان پر اینٹیں رکھواتا، اور پھر حکم دیتا کہ گھٹنوں کو خم دے کر دھوپ میں کھڑے ہو جاؤ۔۔۔۔۔میں ان دنوں پائلز کا مریض تھا، یہ سزا میرے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتی ، اللہ نے برداشت کی جو طاقت عطا کر رکھی ہے وہ ان حالات میں بہت مددگار ثابت ہوتی، ایک دن مظفر نے مجھے تفتیش کے لئے اپنے آفس کے باہر کھلے میدان میں بلایا تو میں نے اپنے عقب میں موجود ایک سیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک بہت خوبصورت لڑکی کے کھڑے دیکھا، ایک ہی نظر میں اندازا لگایا کہ بہت پڑھی لکھی اور کسی بڑے خاندان کی لگتی ہے، میں نے فیصلہ کیا کہ یہ مظفر آج جو بھی سزا دے، جو بھی تشدد کرے اسے جوانمردی سے برداشت کرنا ہے ، تاکہ عقوبت خانے کی سلاخوں کے پیچھے بند اس لڑکی کے حوصلے بلند رہیں، مظفر کی سزا برداشت کرکے اپنے سیل میں واپس جاتے ہوئے میں نے ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھا، وہ کوئی عام سیاسی کارکن یا ملزم نہیں لگتی تھی ، رات کو فوجی اور ایجنسیوں کے لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے تھے اور شاہی قلعہ کے اسیر عام پولیس کی نگرانی میں آجاتے ، یہ وہ چند گھنٹے ہوتے جب درجنوں مختلف سیلوں میں بند قیدی ایک دوسرے سے باتیں کر لیا کرتے تھے، اس رات میں نے سب سے سوال کیا کہ آج میں نے عقوبت خانے کے اوپر والے سیل میں جس لڑکی کو دیکھا ہے وہ کون ہے؟
؛؛ وہ ڈاکٹر ناصرہ ہیں، رانا شوکت محمود کی اہلیہ، تمہارے والے کیس میں ہی گرفتار کرکے یہاں لایا گیا ہے؛؛
شاہی قلعہ میں ایک اور سرگرم سیاسی کارکن شاہدہ جبین بھی قید تھیں ، انہیں ہم سے بہت دور ایک سیل میں رکھا گیا تھا اور ان سے بات کرنا ناممکن تھا۔۔ جئے سندھ کے علی حیدر شاہ، منظور موہل صاحب، یوسف خٹک، جاوید اختر اور کئی دوسرے ساتھی رات کو سیاسی گفتگو شروع کر دیتے، ارشاد حقانی کے کالم زیر بحث آتے، جنرل ضیاء سے چھٹکارے کے راستے نکالے جاتے، کبھی کبھی ہم سب ایک دوسرے کو گانے بھی سناتے، جب میری باری آتی تو میں۔۔۔رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا ، کس کے روکے رکا ہے سویرا، گاتا۔۔۔۔۔ہمیں کھانا بانٹنے والے کا نام تھا بھیاء۔۔۔۔ وہ ہم میں سے کسی کو آدھی اور کسی کو پوری اضافی روٹی بھی دے دیا کرتا تھا؛؛؛
وہ اتوار کا دن تھا، جب مجھے غیر متوقع طور پر اچانک سیل سے نکالا گیا، اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر پولیس کی ایک وین میں بٹھا دیا گیا، میں اور دوسرے قیدی حیران تھے کہ اتوار کی چھٹی کے باوجود مجھے کہاں اور کیوں لے جایا جا رہا ہے؟
اس زمانےمیں مجھے لاہور کا چپہ چپہ ذہن نشین تھا، پولیس وین شاہی قلعہ سے باہر نکلی تو میں نے فیصلہ کیا کہ آنکھوں پر پٹی کے باوجود اندازہ لگاؤں گا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔اور میں کامیاب رہا ، منزل پر پہنچنے کے بعد جب میری آنکھوں سے پٹی اتاری جا رہی تھی تو جان چکاتھا کہ وارث روڈ کے لال قلعہ کے اندر ہوں اور جہاں پولیس وین کھڑی ہے اس کے عقب میں لاہور کالج فار وومن کی دیوار ہے، مجھے زیر زمین لے جایا گیا تھا جہاں اڑھائی فٹ کی اندھی راہداری کے دائیں بائیں پانچ فٹ بائی پانچ فٹ کے آٹھ آٹھ سیل موجود تھے اور بھاری آہنی دروازوں میں ایک ایک گول سوراخ تھا جس کے ذریعے قیدیوں کو دو وقت کی روٹی دی جاتی تھی، مجھے سیل میں دھکیلنے کے لئے اس کا بھاری تالہ کھولا گیا تو اندر سے ایک زندہ لاش برآمد ہوئی۔۔۔ جی، زندہ لاش جس کی آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں، اگر پولیس اہلکار اسے سہارا نہ دیتا تو وہ لاش نما انسان ہمارے اوپر گر جاتا۔۔۔وہ تھا حامد جیلانی۔۔۔ ساہیوال سے تعلق رکھنے والا لیفٹ ونگ کا ایک ہونہار جوشیلانوجوان جو پنجاب یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا اور لاہور کے ترقی پسند حلقوں میں بہت جانا پہچانا جاتا تھا، میری اس سے ملاقات 1970سے تھی ، وہ دو چار مہینے پہلے ؛؛جنگ؛؛ میں نوکری حاصل کرنے کی کوشش میں علامہ اقبال روڈ والے دفتر شورش ملک صاحب سے ملنے آتا تھا، میں نے آخری بار اسے اسی عقوبت خانے سے نکلتے دیکھا ، اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا، کبھی پتہ نہیں چل سکا، حامد جیلانی انیس سو ستر میں فہیم جوزی ، پروین ملک، شاہد محمود ندیم مسعود منور اور اس گروپ کے دوسرے لوگوں سے ملنے لارنس روڈ پر روزنامہ آزاد کے دفتر آیا کرتا تھا اور میرا اس سے تعلق وہیں بنا تھا لال قلعہ کے قیدی ساتھیوں نے بتایا کہ وہ کئی ماہ سے یہاں بند تھا، اس نے اس سارے عرصے میں کبھی کسی سے بات کی نہ کسی سوال کا جواب دیا۔۔۔ ہمیں یہاں ایک باباجی دو وقت روٹی دیا کرتے تھے، انہوں نے بھی حامد جیلانی کے بارے میں بتایا کہ وہ کئی ماہ یہاں رہا ، وہ کئی کئی دن روٹی نہیں کھاتا تھا، وہ تمام عرصہ نہ نہایا نہ کبھی اس نے اپنے کپڑے دھوئے ۔لال قلعہ میں میرے ساتھ ، جاوید اقبال معظم، اس کادوست ڈاکٹر اشفاق، موسی سعید، منظور موہل،اور نسیم کاشمیری بھی تھے، اعترافی بیان پر دستخط نہ کر نے پر جاوید اقبال معظم کو روزانہ دو وقت چھتر مارے جاتے تھے، یہ تشدد اس وقت شروع ہوتا جب ہمیں دوپہر اور شام کے بعد روٹی تقسیم کی جاتی۔ مجھے شاہی قلعہ سے ہنگامی حالت میں لال قلعے کیوں منتقل کیا گیا؟ یہ کہانی بھی سن لیجیئے۔۔۔۔۔۔۔
جب مجھے بغاوت کے مقدمے میں ملوث کرکے شاہی قلعے لے جایا گیا، میرا چھوٹا بھائی اختر کنگ ایڈورڈ میں فائنل کا اسٹوڈنٹ تھا، اس کو کچھ خبر نہ تھی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ وہ بہت پریشان تھا اور اس کوشش میں تھا کہ اسکی میرے ساتھ ملاقات ہوجائے، یہ ایک انتہائی ناممکن بات تھی، لیکن وہ اس کے لئے کوئی راستہ ڈھونڈھ رہاتھا، ایک دن اس کی مشہور زمانہ ملک بشیر سے ملاقات ہوئی تو اختر نے اس سے بھی یہ بات کردی، ملک بشیر نے کہا؛؛یہ تو بہت معمولی بات ہے۔۔۔ شاہی قلعہ کے عقوبت خانے کی سول نگرانی جس پولیس افسر کے ہاتھ میں تھی ، وہ جنرل رانی کا بہنوئی تھا، جنرل رانی کی بہن یعنی اس پولیس افسر کی بیوی کچھ عرصہ پہلے نیویارک ائیر پورٹ پر اسمگلنگ کرتے ہوئے گرفتار ہوئی تھی اور کسی امریکی جیل میں بند تھی، ملک بشیر کا کسی وجہ سے ان لوگوں سے میل ملاپ تھا، ملک بشیر نے میرے بھائی کو شاہی قلعے کے نگران کے پاس روانہ کر دیا، اختر نے گیٹ پر ملک بشیر کی چٹ دی۔ جسے دربانوں نے اپنے افسر اعلی تک پہنچایا، اختر کو عقوبت خانے کے اندر لے جایا گیا، ملک بشیر کا حوالہ ہونے کے باعث اس کے لئے چائے اور دھی بھلے بھی منگوائے گئے، خاطر مدارات کے بعد جب اختر نے اصل مدعا بیان کیا تو اس پولیس افسر کی تو سٹی ہی گم ہو گئی، اختر سے کہا گیا کہ یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ اسے کسی نقصان کے بغیر اسے واپس جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اختر کو اس کاوش کی سزا دی گئی مجھے لال قلعے بھجوا کر ۔تین ماہ بعد مجھے پھر واپس شاہی قلعے بھجوا دیا گیا، اب مقدمہ بغاوت کی کوٹ لکھپت جیل میں تیزی سے سماعت بھی شروع ہو چکی تھی ، ایک وردی پوش میجر کی روزانہ آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ، وہ ہم سے ریمانڈ کے کاغذات پر دستخط کراتا تھا، میری ہمیشہ سے خوش قسمتی رہی ہے کہ میں جب بھی کسی مشکل میں گرفتار ہوا ، میرے والد محترم کا سوسائٹی میں احترام میرے بہت کام آیا، نعیم ہاشمی کا بیٹا ہونے کا احساس ہی مجھے ہمیشہ تقویت دیتا رہا، شاہی قلعہ کے بہت سے اہلکار مجھے باہر سے سگریٹ ، بسکٹ اور مکھن جیسی اشیاء لا دیا کرتے تھے، ایک ڈی ایس پی آزاد کہوٹ بھی میری بہت ہیلپ کرتے تھے، آزاد کہوٹ نے ایک دن خوش خبری سنادی کہ آپ اگلے دن رہا ہو رہے ہیں، اس نے بتایا کہ ریاست کے خلاف بغاوت کے مقدمے کا میں واحد ملزم ہوں ،جس کی لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کر لی ہے ، میری ضمانت کے لئے اعتزاز احسن نے درخواست دائر کی تھی، اعتزاز احسن نے میری مدد کیوں کی، یہ آج تک میں نے اعتزاز صاحب سے پوچھا ہے اور نہ انہوں نے کبھی بتایا ہے۔۔
میری ضمانت کے کچھ ہی عرصے بعد اس مقدمہ بغاوت کے 36 ملزمان کو سزائے موت اور 18 کو عمر قید سنادی گئی