چور بھی کہے چور چور

چور بھی کہے چور چور
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

المیہ ہے کہ ”آپریشن نیا پاکستان“ کے تحت اشرافیہ اور نو دولتیوں کی ایسی نسل پیدا کی گئی جو اپنے ملازمین اور ماتحتوں پر رحم کرتے ہیں نہ ہی قومی مفادات کا احساس، مال و دولت کے لیے جائز و جائز کی تفریق کیے بغیر ہر کام کرنے کو تیار رہتے ہیں اور بھاشن شفافیت کے جھاڑتے ہیں۔ ڈی ایچ اے جیسی پوش آبادیوں میں ایسے چھوٹے سرکاری افسروں نے بھی ”دوسری رہائش“ رکھی ہوئی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر بھاری رشوت لیتے ہیں۔ کاغذات میں اپنی رہائش شہر کے عام علاقوں میں ظاہر کرتے ہیں مگر حرام کی کمائی پر پلنے والے اپنے بچوں کو مالدار علاقوں میں رکھ کر انہیں برہمن کلاس میں شامل کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اسٹلیشمنٹ نے تبدیلی کا جھکڑ چلایا تو یہ سب بھی پی ٹی آئی کے حامی بن گئے کیونکہ ایسا کرنا فیشن بنا دیا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر کی مہربانیوں سے پوری کی پوری اصل فیشن انڈسٹری کو پہلے پی ٹی آئی کا ہتھیار بنا کر مخالفوں کے خلاف میدان میں جھونک دیا گیا تھا۔ یوں اپنے ہاتھوں سے تراشا ”نیکی“ کا یہ مجسمہ ایسی کرم فرمائیوں کے باعث اس حد تک مقبول بنا دیا گیا کہ اب تک خود اپنے معماروں کے گلے پڑا ہوا ہے۔

 اپنے ہی ایجاد کردہ پراپیگنڈہ لشکر کو اس حد تک فری ہینڈ اور وسائل فراہم کیے گئے کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کو اب لاکھ بتایا جائے کہ مالی اور اخلاقی طور پر کرپٹ اور امور حکومت سے یکسر ناواقف شخص کو جعلی ہیرو بنایا گیا، وہ آسانی سے ماننے کو تیار نہیں۔ سو اب واحد حل یہی بچا ہے کہ اس مجسمے کو سیاسی طور پر مسمار کرنے کے ساتھ ساتھ مقدمات چلا کر سزائیں دے کر اسکی اصلیت آشکار کر دی جائے۔ بہت زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی، ٹھوس مقدمات موجود ہیں۔ موثر پیروی کے ساتھ ججوں کو ”ٹرکوں“ سے بچا کر ان کے اصل کام پر لگانا ہو گا۔ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ عمران خان کرپشن کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر اس معاملے پر اس قدر ”حساس“ ہیں کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران جب جنرل عاصم منیر نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی ان کی توجہ اس نیت سے ان کی مالی بدعنوانیوں کی جانب دلائی کہ ایک پیج بدنام نہ ہو تو عمران خان نے ناراض ہو کر ان کا تبادلہ کرا دیا تھا۔ عمران خان اور علیمہ خان کا ذکر تو آتا رہا ہے۔ اب ان کی ایک اور بہن ڈاکٹر عظمیٰ کا کرپشن کیس بھی سامنے آ گیا ہے۔ اینٹی کرپشن نے عمران خان کی بہن اور بہنوئی کے خلاف ضلع لیہ میں 5 ہزار 261 کنال قیمتی اراضی فراڈ کے ذریعے سستے داموں خریدنے پر مقدمہ درج کر لیا۔ مقدمہ درج کرنے سے پہلے رپورٹ تیار کی گئی۔

 ایف آئی آر کے مطابق ڈاکٹر عظمیٰ خان نے لیہ کے علاقے نواں کوٹ میں 5 ہزار 261 کنال اراضی دھوکا دہی اور سیاسی دباؤ کے ذریعے 13 کروڑ روپے کی لاگت سے خریدی جبکہ زمین کی اصل قیمت 6 ارب روپے تھی۔ ڈاکٹر عظمیٰ خان نے اپنے شوہر احد مجید کے ساتھ زمین کی رجسٹریشن شیئر کی، یہ زمین گریٹر تھل کینال منصوبے کے قریب خریدی گئی۔ مقامی لوگوں کو اس منصوبے کے بارے میں علم نہیں تھا جب کہ یہ معلومات ڈاکٹر عظمیٰ خان کے پاس موجود تھیں اور وہ اس معاہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ مقامی لوگوں سے 500 کنال زمین چھینی گئی اور انہیں ضلعی انتظامیہ نے زبردستی زمین چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا کہ غلام اصغر پٹواری نے 2 ہزار کنال کی جعلی میوٹیشن کی۔ ترجمان اینٹی کرپشن نے بتایا کہ زمین مالکان نے ملزمان کے خلاف مقامی تھانے میں زبردستی زمین خریدنے کی شکایات درج کرائی تھیں، جبکہ کچھ مقامی لوگوں نے جسٹس آف پیس میں بھی درخواستیں دیں۔ یقیناً یہ بہت سنگین کیس ہے اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے جب یہ زمینیں زبردستی ہتھیائی جا رہی تھیں تو اس وقت بھی متاثرہ افراد نے مقامی تھانے میں درخواستیں دیں اور جسٹس آف پیس سے بھی رجوع کیا تھا۔ یہ تمام کارروائی انہی تاریخوں میں ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس سے پہلے ثاقب نثار کے دور میں علیمہ خان کی اندرون و بیرون ملک جائیدادوں کا معاملہ سامنے آیا تو تمام سیاسی جماعتوں نے سنگین کرپشن دیکھ کر منی ٹریل کے لیے نے بہت شور مچایا مگر سپریم کورٹ نے بیرونِ ملک بینک اکاؤنٹس اور جائیدادوں سے متعلق کیس میں علیمہ خانم کو 2 کروڑ 94 لاکھ روپے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

 چیف جسٹس میں ثاقب نثار نے اپنی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنا کر خود ہی سماعت کی۔ علیمہ عدالت میں پیش ہوئیں تو چیف جسٹس نے انہیں روسٹرم پر بلا لیا۔ علیمہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے جائیداد خریدنے کے لیے 50 فیصد قرض لیا۔ بعد ازاں علیمہ خانم نے اپنا بیان حلفی ایف آئی اے کے پاس جمع کرایا جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کی یو اے ای میں جائیداد تھی۔ انہوں نے یہ جائیداد بیرون ملک اپنے کاروبار سے بنائی تھی تاہم اسے فروخت کر دیا ہے جبکہ اس خرید و فروخت کے حوالے سے ایف بی آر کو بھی مطلع کر دیا ہے۔ یوں ثاقب نثار کورٹ نے مہر لگا کر سارا معاملہ آسانی سے نمٹا دیا۔ سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کرتی رہ گئیں مگر منی ٹریل آج تک نہیں مل سکی۔ ثاقب نثار اور ہم خیال ججوں کی مہربانی سے علیمہ خان المعروف سلائی مشینوں والی باجی کے سارے مالی معاملات کو عدالتی کور دے دیا گیا۔ ہو سکتا اب یہ کیس بھی نئے سرے سے اٹھایا جائے۔ کئی دوسرے سیاسی رہنماؤں کی طرح پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو بھی عمران خان کے سرکاری ملازم والد اکرام اللہ نیازی کی ملازمت سے برطرفی کی وجہ کرپشن کو قرار دے چکے ہیں۔ خود عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس، القادر ٹرسٹ کیس، فارن فنڈنگ کیس تو چل ہی رہے ہیں۔ لیکن کئی میگا سیکنڈل بھی ہیں جن کے مقدمات مخصوص وجوہات خصوصاً عدالتی جھکاؤ دیکھ کر اب تک دائر ہی نہیں کیے جا سکے۔ عمران کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر بھی کرپشن کے مقدمات ہیں۔

 بشریٰ کی سہیلی گوگی نے تو کوئی شعبہ نہیں چھوڑا۔ سرکاری ملازموں کے تبادلوں پر بھی لوٹ مار مچا رکھی تھی۔ یہ عمران خان کا دور حکومت ہی تھا کہ جس میں پاکستان کرپشن کے عالمی انڈکس میں 117 سے 140 ویں نمبر پر آ گیا تھا۔ بیرونی ساکھ یہ تھی کہ فنانشنل ٹائمز اور گارڈین جیسے معتبر اخبارات نے عمران خان کے چندے والے تمام منصوبوں میں کرپشن کی نشاندہی کی۔ پی ٹی آئی نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے برطانوی عدالتوں چیلنج کرنے کے بجائے خاموش ہو کر بیٹھنے میں ہی عافیت جانی۔ خواجہ آصف نے شوکت خانم ہسپتال کے چندے کے استعمال کے حوالے سے جو الزام لگایا تھا عمران اسے پاکستانی عدالت میں چیلنج کر کے الٹا پھنس گئے اب جواب نہیں دے پا رہے۔ رہ گئی اخلاقی کرپشن کی بات تو ایک ٹیریان کیس ہی کافی ہے۔ تیسرا پہلو فوجداری مقدمات کا ہے 2014 میں ریاستی املاک پر حملے اور اب 2023 میں عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے پر دہشت گردی اور بغاوت کے کیس تیار ہیں۔

 یہ الگ بات ہے کہ ہماری عدلیہ کے مخصوص ججوں کا ٹولہ کیس چلانے کے بجائے انصاف کی کرسیوں پر بیٹھ کر اپنے ”محبوب لیڈر“ کی وکالت خود کرتا آ رہا ہے مگر اب یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چل نہ پائے گا۔ انٹرنیشل اور لوکل اسٹیبلشمنٹ کے اشتراک سے تراشا گیا بت پاش پاش ہو رہا ہے۔ گرد بیٹھنا شروع ہو گئی، مقدمات بھی تیار ہیں، سہولت کار بھی شکنجے میں آئیں گے، کرپشن سمیت سارا کچا چٹھا پوری دنیا کے سامنے کھل جائے گا، ”سارا ٹبر چور“ ہے کی صدائیں بھی اپنے اصل مقام کا رخ کرتی نظر آئیں گی، پی ٹی آئی کے قیام کے روز اوّل سے آج تک کرپشن کے خلاف عمران خان اور ان کے قریبی رشتہ داروں، سیاسی و غیر سیاسی ساتھیوں اور سہولت کاروں کے دوسروں پر الزامات ”چور بھی کہے چور، چور“ سے زیادہ کچھ نہیں، عمرانی حکومت سے بیرون ملک درآمد کردہ گروہ کو اقتدار پر مسلط کر کے ملکی مفادات کے خلاف جو کھیل کھیلا گیا وہ الگ سے ایک ہوشربا داستان ہے۔