جنرل ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ پرحملہ ہوگیا

جنرل ہسپتال کی ایمرجنسی پر بھی حملہ
کیپشن: Attack On General Hospital
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(زاہد چودھری)تحریک لبیک کے مشتعل کارکنوں کا جنرل ہسپتال کی ایمرجنسی پر بھی حملہ،بیسمنٹ میں زخمی پولیس اہلکاروں پر پھر سے تشدد کیا، پتھر برسائے، مریضوں اور لواحقین سے بھی مارپیٹ کی، مشتعل ہجوم میٹروبس سٹیشن پر بھی توڑ پھوڑ کرتا رہا۔

تفصیلات کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے مشتعل کارکنوں نے جنرل ہسپتال کی ایمرجنسی پر بھی دھاوا بول دیا۔ مشتعل کارکنوں نے مریضوں اور ان کے لواحقین سے بھی مارپیٹ کی۔ کارکنوں کے تشدد سے زخمی پولیس اہلکاروں پر ہسپتال کی بیسمنٹ میں بھی تشدد کیا گیا اور پتھر برسائے گئے۔ تحریک لبیک کے کارکنوں نے میٹرو بس سٹیشن جنرل ہسپتال پر بھی دھاوا بول دیا، خوب توڑ پھوڑ کی۔

اس موقع پر توڑ پھوڑ سے روکنے والے پولیس اہلکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ منظر عام پر آنے والی فوٹیج میں ہجوم کے تشدد سے بچنے کیلئے پولیس اہلکار کو جنگلہ پھلانگتے اور جنرل ہسپتال کی ایمرجنسی کی جانب جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جسے مسلسل مارپیٹ کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔  گزشتہ روز شنگھائی برج فیروزپور روڈ پر مذہبی جماعت کے کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری موجود تھی ۔روڈ خالی نہ کرنے پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان پتھراو اور شیلنگ شروع ہو گئی ۔شیلنگ کے باعث مظاہرین شنگھائی روڈ اور کماہاں روڈ کی جانب سے نکل گئے ۔شیلنگ ختم ہونے کے بعد مظاہرین دوبارہ شنگھائی برج پر آگئے اور پولیس کو واپس جانا پڑا۔ مظاہرے کے باعث ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر رہی ۔کاروباری مراکز بھی شیلنگ اور پتھراو کے باعث بند رہے اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔،تصادم کے دوران پتھرائو اور تشدد کے باعث درجنوں پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے صوبہ بھر کی ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ احتجاجی مظاہروں کے باعث بند راستے فوری طور پر کھلواکر عوام کی مشکلات دور کی جائیں۔و زیر قانون راجہ بشارت کی زیر صدارت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اجلاس میں احتجاج کی وجہ سے بند راستے کھولنے کی حکمت عملی طے کی گئی ۔

ٹریفک جام کے باعث گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں جس سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرناپڑا،موٹروے پر بھی ٹریفک کی روانی متاثر رہی۔ ملتان روڈ پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہیں۔

M .SAJID .KHAN

Content Writer