ذوالفقار  علی بھٹو  کیس پر صدارتی ریفرنس، جسٹس منصور کا سماعت کرنے سے اختلاف، عدالت نے 9 معاونین مقرر کر دیئے

zulfiqar ali bhutto Case President's reference, Supreme Court of Pakistan, Nine Members Larger Bench, Justice Qazi Faiz Isa, Ahmad Raza Qasoori, justice Mansoor Ali, Attorney General of Pakistan, President of Pakistan, Asif Ali Zardari, Bilawal Bhutto
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 سٹی42: سپریم کورٹ  آف پاکستان کے نو رکنی بنچ نے ذوالفقار علی بھٹو  صدارتی ریفرنس میں آئین اور قانون کے متعلقہ نکات اور فوجداری پروسیجرز پر عدالت  کی معاونت  کرنے کے لیے 9 معاونین مقرر کر دیے اور کیس کی مزید سماعت جنوری تک ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو  کی سزائے موت کے متعلق صدارتی ریفرنس پر پہلی باقاعدہ سماعت منگل کے روز کی، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی  شامل ہیں۔اٹارنی جنرل منصورعثمان اور پاکستان  پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر موجود تھے۔


ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور داماد  کی عدالت میں حاضری
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر  اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کے داماد آصف زرداری بھی عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے براہ راست کارروائی نشر کرنے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا جب کہ اس دوران بلاول بھٹو زرداری نے کیس میں فریق بننے کی درخواست کردی۔

سماعت کے آغاز پر عدالت نے ریفرنس میں پیش ہونے والے وکلا کے نام لکھوائے،  چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کی درخواست سے پہلےہم نے اس کیس کی کارروائی کو لائیو نشریات کا فیصلہ کر لیا تھا،  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ ہرقانونی وارث کا حق ہے کہ اسے سنا جائے۔

اگر یہ صدارتی ریفرنس ہے تو کیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟ چیف جسٹس کا سوال
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ صدارتی ریفرنس ہے توکیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟  اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ صدارتی ریفرنس کو حکومت چلانا چاہتی ہے، ریفرنس 15 صفحات پر مشتمل ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ صدارتی ریفرنس میں صدر صاحب ہم سے کیا چاہتے ہیں؟کون سے صدر نے یہ ریفرنس فائل کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آصف زرداری نے بطور صدر یہ ریفرنس بھجوایا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ کسی صدر نے صدارتی ریفرنس واپس نہیں لیا تو یہ اب بھی عدالت کے دائرہِ اختیار میں ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ریفرنس پڑھ کر سنادیں اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ریفرنس 15 صفحات پر مشتمل ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ کے مدعی ایڈووکیٹ احمدرضا قصوری کی روسٹرم پر آمد

دوران سماعت ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ درج کروانے والے مدعی  احمد رضا قصوری روسٹرم پر آئے اور  بھٹو کیس کے متعلق سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے ایک اخبار میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا۔جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے،  کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے؟ 

چیف جسٹس نے قرار دیا کہ بہتر ہوگا اٹارنی جنرل کو دلائل دینے دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21 اپریل 2011 کو صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا تھا اور صدارتی حکم نامے کے ذریعے بھٹو ریفرنس کے سوالات فریم کیے گئے۔

نو رکنی بنچ کی تشکیل کی تکنیکی توجیہہ

دوران سماعت چیف جسٹس ن قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ ایک سینئر ممبر بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے، دو اور ججز نے ذاتی وجوہات پر سماعت سے معذرت کی، اس کے بعد 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔

بھٹو  ریفرنس پر  جسٹس منصور کے اہم قانونی سوالات 
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھادیے اور کہا کہ سپریم کورٹ بھٹوکیس میں فیصلہ سناچکی اور نظرثانی بھی خارج ہوچکی، ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی، ایک معاملہ ختم ہوچکا ہے، عدالت کو یہ توبتائیں کہ اس کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟ فیصلہ برا تھا توبھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے بدلا نہیں جاسکتا، یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے۔

اب ہم بھٹو فیصلے کو چھو بھی نہیں سکتے، عدالت کو بتائیں کو جو معاملہ حتمی ہوکر ختم ہوچکا اسے دوبارہ کیسے کھولیں؟ جسٹس منصور  کی آبزرویشن
جسٹس منصور نے فاروق نائیک سے  ،خاطب ہو کر کہا،  آپ عدالت کوکوئی قانونی حوالہ تو دیں، آرٹیکل 186 کے تحت دائر صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظرثانی نہیں ہوسکتی، اب ہم بھٹو فیصلے کو چھو بھی نہیں سکتے، عدالت کو بتائیں کو جو معاملہ حتمی ہوکر ختم ہوچکا اسے دوبارہ کیسے کھولیں؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ بھٹو کیس عوامی اہمیت کا حامل کیس تھا۔

جسٹس منصور نے قرار دیا کہ عوامی اہمیت کےحامل سوال  کو صدر  مملکت نے دیکھنا تھا،عدالت قانونی سوال دیکھے گی جوبھی کیس ہو ، عدالت قانونی سوالات کے بغیرفیصلہ کیسے کرسکتی ہے۔ عدالت کس قانون کے تحت یہ ریفرنس چلائے۔

  عدالتی معاونین کا تقرر
منگل کی سماعت میں اہم ترین پیش رفت یہ ہوئی کہ سپریم کورٹ نے بھٹو  کیس کی سماعت کے دوران آئین اور قانونی نکات کی تشریح مین عدالت کی معاونت کرنے کے لئے قانون اور آئین کے امور پر اچھی گرفت رکھنے والے اچھی شہرت کے حامل 9 عدالتی معاون مقرر کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ عدالت نے کیس کی سماعت جنوری تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔ منگل کے روز سماعت میں سپریم کورٹ نے کہا کہ جسٹس (ر)منظور ملک کو عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے۔ ان کی معاونت ان کی رضامندی سے مشروط ہوگی، وہ عدالت کی معاونت کیلئے تحریری جواب بھیج سکتے ہیں یا ذاتی حیثیت میں پیش ہوسکتے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ فوجداری معاملات پر عدالت کی معاونت کیلئے خواجہ حارث کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے جب کہ بیرسٹر سلمان صفدرکو بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے، عدالتی معاونین کو بوقت ضرورت نوٹس جاری کرکے  متعلقہ نکات پر جواب لیا جائے گا،

بھٹو کیس کے متعلق مواد فراہم کرنے کی ہدایت

عدالت نے کہا کہ نجی نیوز چینلز سے  کہا کہ ان کے پاس ذوالفقاربھٹو کیس سے متعلق انٹرویوز اور کلپس کا ریکارڈ  موجود ہے تو اسے عدالت کو فراہم کیا جائے۔عدالت نے لیجنڈری جیورسٹ جسٹس دراب پٹیل کے انٹرویو کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔

بھٹو کیس کی جنوری میں روزانہ سماعت
منگل کے روز سپریم کورٹ نے عدالتی معاونین کے تقرر کے بعد  ذوالفقارعلی بھٹو ریفرنس کی سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔ منگل کی سماعت کے متعلق عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ جنوری کے مہینے میں اس صدارتی ریفرنس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی اور جنوری میں سماعت شروع ہونے پر کوئی التوا نہیں دیا جائے گا۔

بھٹو کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی بلاول کی درخواست

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کی براہ راست نشریات کیلئے درخواست دائر کی تھی۔

بلاول بھٹو نےدرخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ عوام کے سامنے حقائق رکھنے کیلئے کیس کی لائیو نشریات بہت اہم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہونے کے ناطے انصاف کیلئے درخواست کی، ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کیلئے کردار ادا کیا، ان کا قتل نظام انصاف پر دھبہ ہے۔ 

سماعت کے لئے 11 سال انتظار

سنہ 2011 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق ریفرنس دائر کیا تھا اور اس وقت سابق  چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دسمبر 2012 تک اس کیس کی 6 سماعتیں بھی کی تھیں لیکن ریفرنس سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔ منگل کے روز سماعت کے دوران عدالت نے  کہا کہ آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا اور آخری بار صدارتی ریفرنس 2012 میں سنا گیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا۔