مس یونیورس مقابلہ حسن میں  خواتین کو ہراساں کرنے پر مسلمان ملک میں مقابلہ منسوخ

Miss Universe competition in Malaysia canceled, city42, sexual harassment
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: مس یونیورس آرگنائزیشن نے جنسی ہراسانی کے الزامات پر انڈونیشیا میں اپنی فرنچائز سے تعلقات منقطع کر لئے  اوررواں سال ملائیشیا میں ہونے والا مقابلہ  حسن منسوخ کر دیا ہے۔

مس یونیورس مقابلہ حسن میں حصہ لینے والی 6 خواتین نے انڈونیشیا کے منتظمین پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے پولیس میں بھی شکایت درج کروا دی ہے۔

جنسی ہراسانی کی شکایات سامنے آنے پر امریکا میں قائم مس یونیورس آرگنائزیشن نے ای میل بیان میں کہا ہے کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنا منتظمین کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے پر  مس یونیورس آرگنائزیشن انڈونیشیا میں اپنی فرنچائز اور اس کے ڈائریکٹر کے ساتھ اپنا معاہدہ ختم کر رہی ہے۔

اس مقابلہ حسن کے انعقاد سے ملائشیا اور انڈونیشیا میں فیشن انڈسٹری، ماڈلنگ اور گارمنٹس کی صنعتوں کو بڑے فوائد ہونے کا امکان تھا۔ 

مقابلہ  میں شریک فائنلسٹ خواتین نے شکایات میں  بتایا کہ منتظمین فائنلسٹ خواتین کو غیر متوقع طور پر "داغ دھبوں کی جانچ" کے لیے لباس اتارنے کے لیے کہا گیا تھا اور کچھ کا کہنا تھا کہ وہ بے لباس کر کے ان کی تصویریں بنا رہے تھے۔  مس یونیورس آرگنائزیشن نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ فرنچائز اپنے برانڈ کے معیارات، اخلاقیات یا توقعات پر پورا نہیں اتری۔

جکارتہ پولیس ان دعوؤں کی تحقیقات کر رہی ہے۔

MUO نے یہ بھی کہا کہ وہ اس سال ملائیشیا میں ہونے والے مقابلہ کو بھی منسوخ کر رہا ہے جسے  انڈونیشئین کمپنی، PT Capella Swastika Karya چلا رہی ہتھی۔

مس یونیورس آرگنائزیشن نے ان خواتین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے بہادری کے ساتھ شکایات درج کرائیں اور اس بات کا اعادہ کیا کہ "خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کرنا" ادارہ کی ترجیح ہے۔

  مس یونیورس ادارہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے اپنی پالیسیوں اور طریقہ کار کا جائزہ لے رہا ہے۔ ادارہ نے وضاحت کی کہ دنیا بھر میں اس کے مقابلوں میں شامل ہونے کے لیے کوئی معیاری پیمائش یا جسم کے طول و عرض کو ماپنے  کی  کوئی ضرورت نہیں ہے۔

مس یونیورس، جو اب اپنے 73 ویں ایڈیشن میں داخل ہو چکا ہے، جنوب مشرقی ایشیا میں بہت مقبول ہے، خاص طور پر انڈونیشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ میں، جہاں یہ ٹائٹل جیتنے والی خواتین مشہور شخصیات بن جاتی ہیں اور سوشل میڈیا پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

مس یونیورس برانڈ کی مالک این جکراجوتپ، ایک تھائی ٹرانس جینڈر خاتون ہیں، انہوں نے شادی شدہ خواتین، ٹرانس جینڈر خواتین اور اکیلی ماؤں کو مقابلہ میں شرکت کرنے کی اجازت دے کر برانڈ کو مزید جامع بنانے کی کوشش کے حوالہ سے بھی شہرت حاصل کر رکھی ہے۔

پوپی کیپیلا، انڈونیشیا کی فرنچائز ڈائریکٹر نے انسٹاگرام پر کہا کہ وہ جنسی ہراسانی میں ملوث افراد کے بارے میں لاعلم ہیں۔  اور انہوں نے مقابلہ میں شریک خواتین کے جسم کی پیمائش وغیرہ جیسا کوئی حکم نہیں دیا  اور نہ  اس کی اجازت دی۔

اس نے یہ بھی کہا کہ وہ "کسی بھی قسم کے تشدد یا جنسی ہراسانی کے خلاف ہیں۔"