کیاوزیراعلی پنجاب کیلےحمزہ کے علاوہ بھی دیگر ناموں پر غورکیا جارہا ہے؟

Punjab Assembly
کیپشن: Punjab Assembly
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: مسلم لیگ ن نے حمزہ شہباز کی بجائے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے متبادل ناموں پر غور کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔سینئر تجزیہ کاروں کے مطابق پنجاب میں متوقع طور پر وزیراعلیٰ چوپدری پرویز الہیٰ کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکامی کے بعد ن لیگ اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کروائے گی جس کے لیے مختلف ناموں پر غور شروع کر دیا ہے۔ 

اس بار حمزہ شہباز کے علاوہ دیگر ناموں پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق لیگی قیادت کو پیغام دیا گیا ہے کہ وفاق میں شہبازشریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ان کے بیٹے کو پناجب میں وزارت نہیں دی جانی چاہئیے۔تاہم چند لیگی رہنما حمزہ شہباز کو ہی دوبارہ وزیراعلیٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے لانے کے حامی ہیں۔  اگر کسی نام پر اتفاق نہ ہو سکا تو حمزہ شہباز کو ہی آگے لایا جائے گا۔

ملک احمد خان سمیت دیگر پانچ ناموں پر غور جاری ہے۔سینئر صحافی خاور گھمن کے مطابق ملک احمد خان اس وقت وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار ہیں اور خواجہ سعد رفیق کی کوشش ہے کہ چھوٹے بھائی خواجہ سلمان کو بھی اس دوڑمیں شامل کروایا جائے۔ اس حوالے سے حتمی فیصلہ پارٹی قائد نوازشریف کریں گے۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پنجاب کی موجودہ سیاسی صورتحال کے باعث حمزہ شہباز کو فوری طور پر پاکستان پہنچنے کی ہدایت کردی۔ 

پارٹی ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور سابق وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کل (منگل ) لندن سے براستہ دوحا پاکستان پہنچیں گے اور واپس آکر فوری طور پر اہم سیاسی ملاقاتیں کریں گے۔ حمزہ شہباز گزشتہ ماہ کے آغاز میں لندن گئے تھے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اعتماد کا ووٹ نہ لینے کی صورت میں وزیراعلی پنجاب کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیا ہے، اس سلسلے میں ہفتے کے روز پارٹی رہنماں کے اجلاس میں صوبے کی سیاسی صورت حال اور وزیر اعلی پنجاب چودھری پرویز الہی کے اعتماد کے ووٹ سے متعلق تفصیلی بات چیت کی گئی تھی۔ 

دوسری جانب تحریک انصاف نے پجاب اسمبلی سے اعتماد کے ووٹ کو عدالتی حکم سے مشروط قرار دیتے ہوئے ووٹ لینے کے بعد فوری طور پر اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہفتے کے روز عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے دوران صوبائی سیاست اور پنجاب اسمبلی تحلیل سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔