(ملک اشرف) بیوروکریسی کا عدالتی احکامات کونظراندازکرنےکا رحجان برقرار، لاہورہائیکورٹ میں سرکاری بابووں کےخلاف توہین عدالت کی درخواستوں کی تعداد ڈیڑھ سو سےتجاوز کرگئی، وکلاء نےبیوروکریسی کی جانب سےعدالتی احکامات کونظرانداز کرنےپرسخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
عدالتی احکامات نظرانداز کرنےوالوں میں چیف سیکرٹری میجر ریٹائرڈ اعظم سیلمان،آئی جی پولیس شعیب دستگیرسمیت دیگربڑے چھوٹے افسراورملازمین شامل ہیں، ہائیکورٹ میں روازنہ افسران کےخلاف توہین عدالت کی درخواستوں پرسماعت معمول بن گئی۔ وائس چیئرمین پاکستان بار،صدرہائیکورٹ بار اورسینئروکلاء نےعدالتی احکامات نظراندازکرنےپرسخت ردعمل کا اظہارکیا ہے۔
صدرہائیکورٹ بارحفیظ الرحمان چوہدری کا کہنا ہےکہ عدالتی احکامات کونظرانداز کرنےوالےافسران کےخلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے، عدالتیں اگرایک دوافسران کوتوہین عدالت پرسزا دے دیں توکسی کوحکم عدولی کی جرات نہ ہو۔
سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمان ایڈووکیٹ کہتےہیں کہ بیوروکریسی کاعدالتی احکامات کونظراندازکرنا اچھاشگون نہیں،عدالتی نافرمان بیوروکریٹس ریاست پربوجھ ہیں، عدالتی نافرمان افسرکو جیل بھجوانےکےساتھ بھاری جرمانےبھی ہونے چاہیں۔
وائس چیئرمین پاکستان بارعابد ساقی نےکہاہےکہ بیورورکریسی کےعدالتی احکامات کونظرانداز کرنےکے رویئےکی مذمت کرتے ہیں، بیوروکرسی کواپنےرویےاور کارکردگی میں بہتری لانےکی ضرورت ہے۔
قانونی ماہرین کہتےہیں کہ بروقت انصاف کی فراہمی کےلیےعدالتی فیصلوں پر فوری عمل درآمد کویقینی بنانا وقت کا تقاضا ہے۔