پنجابی فلموں کے "سلطان" راہی کو مداحوں سےبچھڑے 21برس گزرگئے

پنجابی فلموں کے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(زین مدنی) پنجابی فلموں کے” سلطان“ سلطان راہی کو مداحوں سے بچھڑے 21 برس گزر گئے، شاندار اداکاری باعث آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سلطان راہی کا اصلی نام حاجی حبیب احمد المعروف سلطان راہی تھا۔ سلطان راہی بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع مظفرنگر بجنور میں 1938میں پیدا ہو ئے۔ تقسیم ہند کے وقت وہ گوجرانوالہ آگئے۔ انہوں نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز فلم باغی میں ایک معمولی سے کردار سے کیا تھا۔ اس کے بعد وہ خاصے عرصے تک فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ہی ادا کرتے رہے۔ 1971ءمیں فلم بابل میں انہیں ایک بدمعاش کا ثانوی ساکردار دیا گیا۔ جس سے ان کی شہرت کا آغاز ہوا۔ 1972میں بطور ہیرو ان کی پہلی فلم بشیرا ریلیز ہوئی اس فلم نے انھیں بام عروج تک پہنچادیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پاکستان کے فلمی صنعت کے سب سے مقبول اور سب سے مصروف اداکار بن گئے۔

سلطان راہی نے مجموعی طور پر 804 فلموں میں کام کیا جن میں500سے زیادہ فلمیں پنجابی زبان میں اور 160 فلمیں اردو زبان میں بنائی گئی تھیں۔ ان میں سے 430 فلمیں ایسی تھیں جن کے ٹائٹل رول سلطان راہی نے ادا کئے تھے۔ ان کی مشہور فلموں میں بشیرا، شیر خان ،مولا جٹ، سالا صاحب، چند وریام،آخری جنگ اور شعلے کے نام سرفہرست ہیں۔1972 میں ان کی فلم ”بشیرا “ نے بام عروج تک پہنچایا۔ شیر خان ،مولا جٹ، سالا صاحب، چند وریام،آخری جنگ اور شعلے یادگار فلمیں ہیں۔ 1996میں ان کی آخری فلم سخی بادشاہ ریلیز ہوئی۔ جس کا گیت" کی دم دا بھروسہ یار دم آوئے نہ آوئے" ان کے زندگی کا آخری گیت بن گیا۔

9 جنوری 1996 ءکو جب وہ اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ لاہور آرہے تھے تو راستے چند نامعلوم افراد نے انہیں لوٹنا چاہا اور مزاحمت پر انھیں قتل کردیا۔سلطان راہی کا قتل پنجابی فلم انڈسٹری کے لیے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور ان کی کمی آج تک پوری نہیں ہو سکی۔