( شاہین عتیق) شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے عدالتیں بنائی گئی اور ایسا قانون بنایا گیا کہ اگر کوئی عدالت کی بات نہ مانے تو اس کو توہین عدالت میں سزا دی جائے تاکہ کسی کی جرأت نہ ہو کہ وہ عدالت کی حکم عدولی کرے ۔
عدالتوں میں توہین عدالت کی باقاعدہ سماعت کیلئے طریقہ کار مقرر ہے جس کے تحت عدالت سزا سناتی ہے جب انگریزوں کا دور تھا اس وقت لوگ توہین عدالت کے نام سے ڈرتے تھے یہی قانون ہے جس نے عدالت کا خوف شہریوں کے دل میں ڈال رکھا ہے لیکن اب توہین عدالت کا ڈر لوگوں کے دلوں سے نکلتا جا رہا ہے اس کی شاہد یہ وجہ ہے کہ ججوں نے نرم رویہ اپنا لیا ہے عدالت سے توہین عدالت کا نوٹس تو جاری ہوتا ہے لیکن ایک دو پیشی پر یہ نوٹس یا تو واپس لے لیا جاتا ہے یا توہین کرنے والے کی معافی قبول کر لی جاتی ہے اب تو شہریوں نے توہین عدالت کے نوٹس کو آسان لینا شروع کر دیا ہے اس وقت اگر توہین عدالت سے سزا ملنے کا خوف برقرار ہے تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا ہے جب کسی شخص کو معلوم ہوتا ہے اس کو اعلیٰ عدلیہ نے توہین عدالت میں طلب کر لیا ہے تو اس شخص کی نیند حرام ہو جاتی ہے لیکن ماتحت عدالتوں میں توہین عدالت کے نوٹس کو عام نوٹس لیا جا رہا ہے یہاں بعض عدالتیں اپنے کسی بھی حکم پر عمل درآمد کیلئے بار بار نوٹس متعلقہ فریق کو جاری کرتی ہے اول تو وہ پیش ہونے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں اور اگر عدالت کے وارنٹ جاری کرنے پر وہ پیش ہو جائے تو معافی کی درخواست دے کر اپنی جان بچا لیتا ہے حالانکہ عدالت کے حکم عدولی کرنے والا معافی کے قابل نہیں۔
توہین عدالت کا ایک واقع جمعرات کے روز جوڈیشل کمپلیکس میں ایک ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں پیش آیا عدالت میں منشیات کیس سے بری جہاں زیب نامی شخص نے منشیات کے کیس سے بری ہو نے کے بعد عدالت کو اپنی گاڑی جو اے این ایف نے پکڑی تھی اس کے حصول کے لیے درخواست دی کہ وہ بری ہو چکا ہے اس کی گاڑی دلوائی جائے جو اے این ایف کے پاس ہے عدالت نے ایس ایچ او اے این ایف کو طلب کیا لیکن ایس ایچ او ادو تین پیشی پر عدالت کے طلب کرنے کے باوجود پیش نہ ہوا عدالت نے اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور حکم دیا کہ گاڑی سمیت پیش ہوں دو تاریخوں کے بعد ایس ایچ او پیش ہوا عدالت نے اسے حکم دیا کہ وہ گاڑی درخواست گزار کو واپس کرے لیکن ایس ایچ او نے عدالت کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اس کا کہنا تھا وہ عمل درآمد نہیں کر سکتا وہ ہائی کورٹ جا رہا ہے عدالت نے کہا آپ اپیل دائر کرتے رہنا لیکن اس وقت گاڑی مالک کو دے دو لیکن ایس ایچ او گاڑی نہ دینے پر بضد رہا۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایس ایچ او کوعدالتی حکم نہ ماننے پر شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔ دوران سماعت عدالت کے اندر اور باہر کافی رش ہو گیا لیکن ایس ایچ او اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا آخر مجبوراََ عدالت نے اپنے عملے کی وساطت اے ایس ایچ او اسلام پورہ کو طلب کیا تاکہ اے ن ایف کو پکڑا جائے پولیس کو کال کرائی اس پر جب ایس ایچ او نے دیکھا کہ معاملہ پولیس کے پاس جانے لگا ہے تو اس نے عدالت کے سامنے پیش ہو کر معذرت کر لی اور گاڑی درخواست گزار کو دے دی ایس ایچ او کے معافی مانگنے پر عدالت نے اس کی معافی قبول کر لی اور معاملے کو نمٹا دیا۔
یہ واقع کیا سبق دیتا ہے کہ ہمارے قانون نافظ کرنیوالے اداروں میں بعض اہلکار ایسے ہیں جو کسی توہین عدالت یا شوکاز نوٹس کی پروہ نہیں کرتے اور جوکرنا ہے کر لو کی پالیسی پر قائم رہتے ہیں سیشن کورٹ میں 22 اے اور 22 بی کی درخواستوں کو دیکھیں عدالت پرچے کا حکم دیتی ہے ان میں اکثر پر عمل نہیں ہوتا پھر درخواست گذار توہین عدالت کی درخواست دائر کر دیتا ہے سیشن کورٹ میں ایک ہزار درخواستیں توہین عدالت کی زیر سماعت ہے جن میں عدالتیں کاررواۂی کر رہیں ہیں کسی میں طلبی کا نوٹس ہے اور کسی میں جواب داخل کرنے کا حکم چل رہا ہے توہین عدالت کی درخواستیں صرف فوجداری مقدمات میں نہیں بلکہ اس سے زیادہ خراب صورتحال سول کورٹ میں ہے یہاں پر پرائیویٹ لوگ تو توہین عدالت کو سمجھتے ہی کچھ نہیں عدالت کسی قبضیکے خلاف یا کسی زمین پر حکم امتناعی جاری کرتی ہے یہ لوگ اس کو مانتے ہی نہیں اکثر لوگوں کی شکایت آتی ہے کہ انکوں نے حکم امتناعی کا حکم پھڑ دیا اور اپنا کام جاری رکھے ہوے ہیں عدالت میں توہین عدالت کی درخواست آتی ہے ہیں نوٹس جاری ہوتا ہے لیکن کام کی زیادتی کی وجہ سے یہ توہین عدالت کا نوٹس کھٹائی میں پڑ جاتا ہے سول کورٹ میں بے شمار کیس توہین عدالت کے چل رہے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ توہین عدالت پر فوری کارروائی کیوں نہیں ہوتی کیوں نہ سارے کام چھوڑ کر پہلے اس پر کارروائی کی جاے تاکہ ایک دو کو جب تک توہین عدالت میں جیل نہیں بھجوایا جائے گا تب تک لوگ اس توہین نوٹس کی اہمیت کو سمجھ نہیں پائیں گے ۔
سول کورٹ میں سروے کیا ایک سول جج کی عدالت میں سو سو کیس لگے ہوئے ہیں جس میں توہین عدالت کی درخواستیں بھی شامل ہے ایک سول جج سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا اگر سول جج سارے کام چھوڑ کر توہین عدالت کے نوٹس کو ہی نمٹانے لگے تو باقی کیس التوا میں چلے جا ہیں گئے لہٰذا صرف توہین عدالت کو ہی نمٹانا مقصد نہیں بلکہ دوسرے کیس بھی نمٹانا مقصود ہوتا ہے ہماری کوشس ہوتی ہے کہ توہین عدالت کا نوٹس دیکر کم از کم سائل کو طلب کرکے حکم امتناعی لینے والا کا کام نکلوایا جائے اگر ہم توہین عدالت میں خلاف ورزی کرنے والے کو جیل بھجوا دیتیہیں تو پھر یہ کیس الگ بن جائے گا جس کو سننا ہو گا اور کام مزید لمبا ہو جائیگا توہین عدالت کی کارروائی اس وقت مکمل کی جاتی ہے جب عدالتوں میں کیس کم ہوں ہمارے ہاں ایک آڈر لکھوا کر دوسرے اڈر کیلئے وقت نہیں ملتا توہین عدالت کے نوٹس کی الگ سے سماعت کیسے ہو گی ۔
لہٰذا معاملے کو جس طرح ختم کیا جا سکے اور مخالف فریق کو ریلیف مل سکے وہ ہی بہتر ہے یہ بات درست ہے کہ لوگ جج کے نرم گوشے کا فائدہ اٹھا جاتے ہیں اور توہین عدالت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور کچھ وکلاء بھی اپنے سائل کو ہلا شیری دے دیتے ہیں کہ کچھ نہیں بہتر کر لیں گئے ۔انہوں نے کہا اگر توہین عدالت کرنیوالے کو موقع پر ہی ہتھکڑیاں لگوا کر جیل بھجوا دیا جائے تو کم از کم یہ شخص جو جیل رہ کر آیا ہے آئندہ توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ گورنر پنجاب آجکل بڑے اچھے اچھے آرڈیننس لا رہے ہیں ایک توہین عدالت پر بھی کوئی ترمیمی آرڈیننس لے آئیں کیونکہ ہمارے پاس ایک ہی ادارہ ہے وہ ہے عدلیہ جس کے حکم پر فوری عمل درآمدہونا چاہیے۔
توہین عدالت کی سزا چھ ماہ سے زیادہ کر دی جائے یا جرمانہ اتنا ہو کہ آئندہ توہین کرنیوالا محتاط رے لوگوں کے دلوں میں عدالت کا خوف ہونا چاہیے کہ یہ بات درست ہے کہ ایک سول حکم امتناعی جاری ہوتا ہے جس کیخلاف جاری ہوتا ہے وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنا کام نہیں چھوڑتا اور عدالتی کاغذ پھاڑ کر پھینک دیتا ہے عدالت اس کو توہین عدالت میں طلب کرتی ہے لیکن وہ نہیں آتا جب پولیس اس کو پیش کرتی ہے تو وہ بہانہ بنا کر معافی مانگ لیتا ہے اور عدالت اس کو معاف کر دیتی ہے اگر عدالت اس کو معاف نہ کرے اور اس شخص کو جیل بھجوا دے تو شاہد آئندہ سے کوئی حکم امتناعی کو نہ پھاڑے ۔
ہم لوگ ڈنڈے کے یار ہیں جب تک یہ ڈنڈا ہمارے سر پر رہتا ہے ہم تمام کام قانون کے مطابق کرتے رہتے ہیں جیسے ڈنڈا ہٹایا سب کام اسی طرح دوبارہ شروع ہو جاتا ہے ہمیں اس چیز کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ عدالت مقدس ہے ہم نے اس کی عزت کرنی ہے اگر بات نہ مانی یا کوئی اسی حرکت کی جو توہین عدالت کے زمرے میں آ گئی تو ہمیں جیل جا نا ہو گا یہ خوف جب تک ایک عام شہری کے دل پر نہیں ہو گا جتنے مرضی اس کو نوٹس دے دیں بے فیض ہو گا عدالیہ ہمیں انضاف فراہم کرتی ہے یہاں اے ہر شخص کو ریلیف ملتا ہے ہمیں اس کی قدر کرنا چاہیے اور ججوں کو بھی چاہیے کہ توہین عدالت کرنے والے کے لیے نرم رویہ نہ رکھیں اسے سخت سزا دیں تاکہ عدالتوں کا وقار مزید بلند ہو ۔