تحریک انصاف کا کنٹرول سنبھالتے ہی شاہ محمود مشکلات میں پھنس گئے

PTI, Shah Mahmood Quraishi, Imran Khan, Core Committee, City42
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی کا کنٹرول شاہ محمود قریشی نے سنبھال لیا ہے۔

  پی ٹی آئی کے باخبر زرائع کے مطابق عمران خان کے جیل جانے کے بعد شاہ محمود قریشی نے پارٹی امور  باقاعدہ سنبھال لئے ہیں۔ انہوں نے اپنی مشاورت کے لئے  اسد قیصر، شہریار آفریدی، فردوس شمیم نقوی، علی محمد خان کو منتخب کیا ہے۔  شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ ہفتہ کی شام اپنے مشیروں کا اجلاس بلایا جسے میڈیا کے لئے ریلیز کی گئی اطلاع میں کور کمیٹی کا اجلاس کا نام دیا گیا۔ اس اجلاس میں شاہ محمود قریسی اور ان کے ساتھیوں نے چئیرمین تحریک انصاف کی  گرفتاری پر ملک گیر احتجاج کی کال دینے کا فیصلہ کیا۔ 

عمران خان کی گرفتاری کے فوراً بعد شاہ محمود قریشی نے سوشل میڈیا میں پی ٹی آئی کے آفیشل اکاونٹ سے اپنا مختصر وڈیو پیغام پوسٹ کروایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ وکلا کی مشاورت اور کور کمیٹی کے فیصلوں کی روشنی مین آگے بڑھیں گے۔

پارٹی ذرائع کا کہنا ہےکہ ایک ہفتہ قبل عمران خان نے شاہ محمود قریشی کو انتخابات کی تیاری کا ٹاسک دیا تھا۔ ان چئیرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد وہ احتجاج کی طرف جا رہے ہیں، اس دوران اہم ہنگامی فیصلہ سازی کے لئے وہ کور کمیٹی کے ارکان سے مشاورت تو ضرور لیں گے تاہم تحریک انصاف کے آئین کے مطابق پارٹی کا قائد کور کمیٹی کے مشوروں کو لازماً ماننے کا پابند نہیں  ہوتا۔

چئیرمین کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کا ایک اور بڑا چیلنج پارٹی کے انتخابی نشان کو بچانے کے لئے انٹرا پارٹی الیکشن کروانا بھی ہے۔ الیکشن کمیشن نے چئیرمین تحریک انصاف کو  تین روز قبل نوٹس بھیج کر خبردار کیا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی تاریخ جون کے دوسرے ہفتہ گزر جانے کے بعد اس حوالے سے تحریک انصاف کو بھیجے گئے نوٹسز کا کوئی جواب نہیں دیا گیا، اب چئیرمین تحریک انصاف خود چار اگست کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہو کر انٹرا پارٹی الیکشن  کے حوالہ سے اپنی پوزیشن واضح  کریں۔ اس نوٹس میں بتایا گیا تھا کہ اگر انٹرا پارٹی الیکشن نہیں ہوا تو تحریک انصاف کو انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا جائے گا۔ اس نوٹس کے جواب میں چئیرمین تحریک انصاف خود پیش نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمشن کے سامنے پیش ہو کر اس معاملہ میں جو  موقف اختیار کیا اس سے چئیرمین تحریک انصاف کی تضاد بیانی سامنے آ گئی جس کے بعد بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمشن سے 8 اگست تک وقت مانگ لیا،مزید دستاویزات جمع کرانے کی استدعا کی اور موقف اختیار کیا  کہ ان کو کیس کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا، مزید یہ کہ  پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات آئین میں ترمیم سے قبل کرائے گئے۔

 چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ کی زیر صدارت پانچ رکنی کمیشن نے تحریک انصاف کے وکیل کی درخواست  پر انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت تو  آٹھ اگست تک ملتوی کردی لیکن دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل اور پارٹی سربراہ عمران خان کے مؤقف میں تضاد سامنے آیا۔

 
ممبر الیکشن کمیشن نے  تضاد بیانی کی نشان دہی کہ کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے پہلے یہ لکھ کر دیا ہے کہ 8 جون 2022 کو ترمیم کی اور 10 جون 2022 کوانٹرا پارٹی انتخابات کروائے۔ اب وکیل بتا رہے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن پہلے کروایا اورر ترمیم بعد میں کروائی۔

چیف الیکشن کمشنر نے متعلقہ دستاویزات وکیل کو فراہم کرنے کی ہدایت کی تو بیر سٹر گوہر نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کردی۔

چیف الیکشن کمیشن بولے میڈیا پر کہا جاتا تھا الیکشن کمیشن نوٹس دے ہم جواب دیںگ،ے ہم نے تو پی ٹی آئی کی درخواست پرنوٹس کیا ، الیکشن کمیشن نے درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 8 اگست تک ملتوی کردی۔اب اس پیچیدہ کیس کو بھی شاہ محمود بھگتیں گے۔ 

شاہ محمود قریسی اور تحریک انصاف کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اگر الیکشن کمشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کے لئے مہلت دے بھی دی تو بھی تحریک انصاف سے بہت بڑے پیمانہ پر لوگوں کے چلے جانے کے بعد  ارکان کی کسی حتمی فہرست کا وجود ہی نہیں۔ پارٹی کے موجودہ سیکرٹری جنرل اب تک ان لوگوں کو ہی نکالنے کے نوٹیفیکیشن نکال رہے ہیں جو تحریک انصاف چھوڑنے کے باقاعدہ اعلانات کر کے دوسری سیاسی جماعٹوں میں شامل ہو چکے ہیں۔